سقوط حیدرآباد: ایک تحقیقی مطالعہ
( تاریخ کے آئینے میں)
____________
✍️ از: محمد فیضان الحق مہاراشٹرا
مؤرخہ ١٣/ ربیع الاول ١٤٤٦ھ
مطابق 17/ ستمبر 2024
_____________
موجودہ حیدرآباد کا جب بھی ذکر آتا ہے تو عام طور پر یہ تصور ذہن میں آتا ہے کہ کوئی بڑا شہر ہے جسکو آسمان چھوتی عمارتوں نے اور بڑی بڑی گاڑیوں و فیکٹریوں نے اور خوبصورت بنا دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں حیدرآباد کو ایک عظیم خود مختار ریاست کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، جسے آج دکن اور مملکت آصفیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
"دریائے نرمدا کے جنوب میں وندھیاچل اور ست پڑا کی گھنی چھتری کے نیچے کا علاقہ دکن یا دکشنا کے نام سے موسوم تھا، ان پہاڑی سلسلوں اور انکی دشوار گذار وادیوں نے دکن کو شمالی ہندوستان سے بالکل الگ تھلگ کررکھا تھا۔ برعظیم کے اس خطے میں مسلمان علاء الدین خلجی کے زمانے میں داخل ہوۓ، 1294ء/ میں دکن پر اسکے حملے کے وقت تین خود مختار ریاستیں (مہاراشٹرا کرناٹک اور تلنگانہ) قائم تھیں، 15/ برس کے عرصے میں علاء الدین خلجی نے اول الذکر دونوں سلطنتوں کو یکے بعد دیگرے زیر کرلیا، اور یوں دکن میں اسلامی دور کی ابتدا ہوئی” بحوالہ سقوط حیدرآباد کی ان کہی داستان / ص 11
مملکت آصفیہ دنیا کے کئی آزاد ملکوں کے مقابلہ میں نہ صرف یہ کہ رقبہ میں بڑا بلکہ دولت و آبادی اور آمدنی میں بھی ایشیاء کی دیگر خود مختار مملکتوں سے بڑا تھا۔ جس کا رقبہ اس وقت 86/ ہزار مربع میل ( پانچ ہزار ایکڑ ) یعنی انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبہ سے بڑا تھا، اُس وقت ریاستِ حیدرآباد وسائل و آبادی کے لحاظ سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں بہتوں سے مملکت کہلاۓ جانے کی زیادہ مستحق تھی۔ حیدرآباد کی سالانہ آمدنی 25/ کروڑ سے زیادہ تھی۔
"دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں امریکہ اور برطانیہ کی قرض دار تھی، لیکن برطانیہ جیسا بڑا ملک اور ہندوستان خود بھی حیدرآباد کی اسلامی مملکت کے مرہون منت اور مقروض رہے” بحوالہ زوال حیدرآباد اور پولس ایکشن/ ص 17
لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم بام عروج پر پہنچ کر خواب گراں میں مست ہوجاتی ہے، تو زوال اس قوم کا مقدر ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی تاریخ یہی بتاتی ہے، کہ جب ایک اسلامی حکومت اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات سے روگردانی کرکے اپنی من مانی شروع کردیتی ہے تو وہ رو بزوال ہوکر بالآخر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ زوال یکلخت نہیں آتا بلکہ چند عوامل و محرکات ایسے ہوتے ہیں جو معاشرہ پر آہستہ آہستہ اثر انداز ہوکر اسے بتدریج زوال کے راستے پر لے جاتے ہیں۔ اندلس میں ہمارا اقتدار ایسا ختم ہوا کہ وہاں کئی صدیاں حکومت کرنے کے بعد ایک مسلمان نظر نہیں آتا اور ہماری عبادت گاہیں مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے کے مصداق زبان حال سے ہمارے زوال کی داستان بیان کرتی ہیں، اسی قانون فطرت کے عین مطابق حیدرآباد ہماری تاریخ کا دوسرا غرناطہ بن گیا۔
سقوطِ حیدرآباد کا المیہ اکثر ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے؟ جو امت مسلمہ کے اس المناک حادثہ کا باعث بنے، یہ اک ایسی طویل و دلخراش داستان ہے جسے چند الفاظ میں سپرد قرطاس نہیں کیا جاسکتا۔ پھر بھی بہت اختصار کے ساتھ اس کو لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
"سن 1707/ میں "اورنگزیب عالمگیرؒ” کے انتقال کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا، بدیسی سرمایہ دار اور دیسی جاگیر دار مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے، ملک میں طوائف الملوکی اور بدامنی کا طوفان بدتمیزی مچ گیا، جس کے ہاتھ جو کچھ آیا وہ اس کا مالک بن بیٹھا۔
جہاں ایک طرف اورنگزیبؒ کے نااہل جانشینوں کے آپسی جھگڑوں، اور خانہ جنگی کی وجہ سے مغلیہ سلطنت کی بنیادیں کمزور پڑ رہی تھی، تو وہی دوسری طرف "گولکنڈہ” کے محاصرے میں مغلیہ فوج کے کمانڈر ایک تورانی بزرگ "خواجہ عابد حسین” کے پوتے "قمرالدین خاں نظام الملک” نے ان حالات کو دیکھ کر شاہی دربار سے علیحدگی اختیار کی اور دکن کی صوبہ داری پر چلے گئے، اور 1729/ میں دکن میں اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا” بحوالہ حیدرآباد از مخدوم محی الدین
اورنگزیبؒ عالمگیر کی سلطنت میں، مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں، اور راجپوتوں کے فتنے سر اٹھا رہے تھے۔ نظام الملک اگر اپنی خودمختار ریاست کا اعلان نہ کرتے، اور اپنے حدود میں آنے والے مرہٹوں کا وقت رہتے علاج نہ کرتے تو وہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرتے جنہیں روکنا ناممکن ہوجاتا۔
اس خود مختاری کے باوجود مغل شہنشاہ اور نظام الملک کے تعلقات اچھے تھے، اسی لیے مغل شہنشاہ نے نظام الملک کو آصف جاہ کا خطاب بھی دیا، اور آصف جاہ نے بھی ضرورت پڑنے پر دہلی جاکر مغلوں کی مدد کی۔ 1748/ میں آصف جاہ اول کا انتقال ہوا انکے بعد نظام الملک کے پانچ جانشینوں نے ریاست حیدرآباد پر حکومت کی، ساتویں اور آخری فرمانروا میر عثمان علی خان تھے۔
آصف جاہ سابع کے دور میں سلطنت نے ہرلحاظ سے ترقی حاصل کرلی تھی، اور عوام الناس بھی خوشحال تھی۔
دنیا کے جن ممالک میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی اقوام متوطن ہوں، وہاں عدم مساوات و انتشار کے باعث عمومی طرز حکومت کی پائداری کی کوئی ضمانت نہیں، لیکن حیدرآباد کے شاہان آصفیہ کے دور حکومت میں جہاں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی قومیں متوطن تھی، وہاں ہر کل پرزہ اپنی اپنی جگہ اس طرح جمایا گیا تھا کہ دوسو سالہ نظام حکومت میں کہیں بھی عدم استحکام پیدا نہ ہونے پایا۔
"بیسویں صدی کے آغاز میں مملکت آصفیہ کی جغرافیائی صورت حال اس طرح تھی کہ ساری مملکت چاروں طرف سے ہندوستانی علاقوں اور صوبوں سے گھری ہوئی تھی، مملکت کی 85/ فیصد آبادی غیر مسلم تھی، کچھ قلیل تعداد عیسائیوں سکھوں پارسیوں اور بدھ مت کے پیروؤں کی بھی تھی، مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریبا 15/ فیصد تک ہی محدود رہ گیا تھا، اور یہ زیادہ تر شہروں یا قصبات میں آباد تھے، سرکاری زبان تو اردو تھی، مگر عوام کی اکثریت تلنگی کنڑ اور مرہٹی بولتی تھی۔ سیاسی طور پر مملکت میں مکمل طور پر آصف جاہی حکمرانوں کا اقتدار تھا، 1919/ سے انتظام مملکت میں ایک نئے نظم و نسق کا آغاز ہوا، لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اس وقت کی ہندوستان کی سیاسی تحریکوں کے زیر اثر ریاست حیدرآباد میں بھی جمہوری تحریکی ابھرنے لگیں، 1927/ کے آس پاس مجلس اتحاد المسلمین کا قیام عمل میں آیا، جس کے ساتھ ساتھ آریہ سماج، ہندو مہاسبھا اور حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس بھی معرض وجود میں آئیں، اور مملکت میں فرقہ وارانہ سیاست فروغ پانے لگی۔ یہاں تک کہ طویل جدوجہد کے بعد ہندوستان بھی انگریزی اقتدار سے آزاد ہوگیا۔ اور جنوبی ایشیاء میں دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آگئیں” بحوالہ سقوط حیدرآباد: صفحہ 69/
ادھر آزادئ ہند کے بعد دیسی ریاستوں کے انضمام کا مسئلہ ملک کے لیے ایک کٹھن آزمائش اختیار کرچکا تھا، کیوں کہ انگریزوں کے اقتدار نے ہندوستان کی آزادی کے ساتھ دیسی ریاستوں کو اپنی مرضی پر چھوڑ دیا، جوں ہی ملک کی آزادی کا اعلان ہوا حکومت ہند کی جانب سے یہ دباؤ ڈالا جانے لگا کہ دیسی ریاستوں کو انڈین یونین میں شامل کیا جاۓ، جو شامل ہونے کے لئے رضامند تھے انہوں نے شمولیت اختیار کی، جن میں جونا گڑھ، بھوپال اور دیگر ریاستیں شامل تھیں، وہیں ریاست کشمیر وغیرہ نے بھی اپنی خودمختاری کو ختم کرکے انڈین یونین میں شرکت کرلی، جب کہ ریاست حیدرآباد اب بھی خودمختار ہی رہنا چاہتی تھی۔ لیکن حیدرآباد کو اس انقلاب عظیم کا اندازہ ہی نہ تھا کہ جس برٹش حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ برطانیہ کی حکومت سمندر کی لہروں پر بھی ہے، ایسی حکومت ہندوستان کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئی تھی، تو تنہا حیدرآباد برٹش کے چلے جانے کے بعد ہندوستان کا مقابلہ کیسے کرسکتا تھا۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کی آبادی فقط 15/فیصد تھی اور چاروں طرف سے کانگریسی حکومت سے گھرا ہوا تھا، حیدرآباد کا تعلق دنیا کے کسی حصہ سے نہ سمندر کے اور نہ خشکی کے راستے سے تھا۔ ایسی نازک صورت حال میں مسئلۂ انضمام پر گفت و شنید کرنا آسان نہ تھا، تو خود مختاری کا اعلان کس قدر ناقابل ہوسکتا تھا۔ جہاں ایک طرف حکومت حیدرآباد کا مؤقف یہ تھا کہ آزادئ ہند کے نتیجے میں برطانوی اقتدار کا خاتمہ ہوچکا اور دیسی ریاستیں بھی مکمل طور پر آزاد ہوچکی، گویا وہ اس حیثیت پر واپس جاچکی، جو برطانوی استعمار و اقتدار سے پہلے انہیں حاصل تھی۔
"کیوں کہ ہندوستان کی اکثر ریاستیں انگریزوں کا عطیہ یا سیاسی لین دین کی بناء پر وجود میں آئی، اور انکے استحکام و بقاء کا انحصار بالکلیہ انگریزوں پر ہی رہا، لیکن خود انگریز اسوقت حیدرآباد کی خودمختار مستحکم حکومت کی امداد و اعانت کے محتاج تھے، جب کبھی برطانوی حکومت پر برا وقت آیا تو ایک طاقتور حلیف کی حیثیت میں ریاست حیدرآباد نے اپنی بہادر افواج اور بے شمار دولت سے ہمیشہ اسکی حفاظت و اعانت کی۔ بحوالہ سقوط حیدرآباد اور پولس ایکشن: ص 12
دوسری طرف بھارت کی حکومت، انڈین نیشنل کانگریس اور حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس اور دیگر ہندو جماعتوں کا دعوی یہ تھا کہ جمہوری دور میں اکثریت پر اقلیت کی بالادستی جائز نہیں، اس بنیاد پر انہوں نے حکومت حیدرآباد سے غیر مشروط طور پر انڈین یونین میں شمولیت کا اصرار شروع کردیا۔ حالانکہ اس وقت نظام نے حکومت ہند سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ خارجی امورِ دفاع اور مواصلات حکومت ہند کے تحت رہے گے، اور ریاست حیدرآباد کی خود مختاری کو بھی برقرار رکھا جاۓ گا۔
"چنانچہ حیدرآباد اور آزاد ہندوستان کے درمیان 1947/ کی ابتداء سے مستقبل کے سیاسی تعلقات کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی، اس کے نتیجہ میں نومبر 1947/ کو دونوں فریقین کے درمیان ایک ” معاہدۂ انتظامیہ جاریہ ” طے پایا، جس کے ذریعہ آئیندہ کے تعلقات کا پرامن طور پر حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن بھارت کی نیت شروع سے خراب تھی، وہ جلد یا بدیر ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا تہیہ کرچکا تھا۔ اسوقت اس کے پیش نظر سوال یہ نہیں تھا کہ آیا مملکت کا انضمام ہو یا نہ ہو، بلکہ یہ تھا کہ یہ انضمام فوری ہو یا اس میں تاخیر گنوارا کی جاسکتی ہے؟ بد قسمتی سے اس وقت کے حیدرآبادی قائدین نے بھی دور اندیشی فراست اور سنجیدگی کا ثبوت نہیں دیا۔ مجلس اتحاد المسلمین کے قائدین کو بھارت کی اصل نیت اور اسکی فوجی، سیاسی اور معاشی قوت کا یا تو اندازہ نہیں تھا، یا پھر وہ جانتے بوجھتے ہوۓ مسلمانان دکن کے لیے ایک ایسا مہلک خطرہ مول لے رہے تھے، جو مسلمانوں کے لیے یقینا ہر طرح سے نقصان دہ ثابت ہوا”۔ بحوالہ سقوط حیدرآباد: صفحہ 70
حیدرآباد کی اسوقت کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوۓ، اپنے زمانے کے ممتاز عالم دین مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا رسالے ترجمان القرآن، 1948/ دسمبر کے شمارے میں لکھا یہ اقتباس ملاحظہ ہو ” تقسیم کے بعد حیدرآباد انڈین یونین کے گھیرے میں آچکا تھا، اسلیے نہ باہر سے کوئی بڑی مدد اسکو پہنچ سکتی تھی اور نہ ہی اندر اس کا کوئی امکان تھا۔ ان حالات میں کوئی ہوش مند انسان یہ امید نہیں کرسکتا تھا کہ وہاں 85/ فیصدی غیر مسلم اکثریت پر 15/ فیصد مسلم اقلیت کا وہ غلبہ و اقتدار برقرار رکھا جاسکتا ہے، جو پہلے بالکل مختلف حالات میں قائم ہوا اور رہا تھا، اور کسی مرد عاقل سے یہ بات بھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ حیدرآباد انڈین یونین سے لڑکر اپنی خودمختاری قائم نہیں رکھ سکتا۔ دانشمندی کا تقاضہ یہ تھا کہ مسلمان کشمکش، مزاحمت اور جنگ کے بجائے اپنے مستقبل کے لیے کوئی ایسی راہ تلاش کرتے جس میں وہ کامل تباہی سے بچ بھی سکتے، اور آئندہ اپنی اخلاقی اور دینی حالت کو بہتر بناکر کوئی نتیجہ خیز جدوجہد کرنے کے مواقع بھی انہیں حاصل رہتے، لیکن جن لوگوں نے ایسی کوئی راہ سوچی اور بتائی وہ مسمانوں کو دشمن نظر آۓ، انہوں نے اپنی رہنمائی کے لیے ایسے لوگوں کو پسند کیا جو اندھے جوش، کھوکھلے نعروں، جھوٹی توقعات غلط امیدوں، بے بنیاد آرزؤوں اور بے زور لاف و گزاف کے ذریعہ سے ان کے غرور و نفس کو فی الوقت تسکین دے سکے۔ وہ اس آواز پر مر مٹے کہ کوئی دلّی کے لال قلعہ پر آصف جاہی جھنڈا گاڑ دینے کی بات تو کرتا ہے، اس نشہ میں 40/ لاکھ کی پوری آبادی مست ہوگئی، کوئی یہ سوچ کر اپنے وقتی لطف کو کرکرا کرنے پر راضی نہ ہوا کہ آخر یہ کام ہوگا کس طرح؟ سب کے سب آنکھیں بند کرکے اس لاف زنی کے پیچھے چل پڑے اور اپنی قسمت پر ناز کرنے لگے کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی انہیں ایسے بے نظیر لیڈر میسر آتے ہی چلے جاتے ہیں”
بھارت سے ٹکراؤ کی صورت میں کیا سنگین نتائج ہوسکتے تھے اسکا اندازہ اسوقت کم لوگوں کو تھا، اتحاد المسلمین کے قائدین لال قلعہ پر آصفی جاہی پرچم لہرانے کی بات کررہے تھے، اور یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب خلیج بنگال کی لہریں حضور نظام الملک کے پاؤں چومے گی، 1948/ کا نصف سے زائد عرصہ اسی امید و بیم میں گزر گیا۔
اگست 1948/ سے ہندو تحریکوں اور سازشوں کے نتیجے میں اور بھارتی حکومت کے سرپرستی میں مملکت آصفیہ کے سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت ہنگامے شروع ہوگئے، اور مسلمان آبادیوں پر مسلح ہندؤوں یہاں تک کہ بھارتی فوج کے حملے وقتا فوقتاً ہونے لگے، تاآنکہ 12 اور 13 ستمبر کی رات کو بھارتی افواج نے ریاست کے پانچ محاذوں پر اچانک اور بڑے پیمانے پر حملہ کیا، اس حملہ میں بھارتی فضائیہ نے بھی حصہ لیا، اور بیدر ورنگل کے ہوائی اڈوں پر زبردست بمباری کی۔ بھارتی حکومت کے اس نام نہاد پولس ایکشن کے نتیجہ میں 5/ لاکھ سے زائد مسلمان قتل ہوۓ، خون کی ندیاں بہائی گئی، عورتوں کی عزتیں لوٹی گئی۔
حیدرآبادی فوج نے کچھ تو وسائل کی کمی اور کچھ بے دلی، اور کچھ غیر منظم صورت میں کسی خاص تیاری کے بغیر بھارت کی برّی اور فضائی فوج کے حملوں کا جواب دینے یا ان سے دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں مؤثر اور کارگر نہ رہیں، رضاکاروں نے بڑی بہادری سے بھارتی افواج کا مقابلہ کیا، مگر فریقین میں مقابلہ برابری کا قطعی نہ تھا۔
چنانچہ 18/ ستمبر کو حکومت حیدرآباد کی ہدایت پر حیدرآبادی فوج نے ہتھیار ڈال دیے، اس طرح دکن میں مسلمانوں کے چھ سو سالہ قابل رشک اور قابل فخر اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔
ظلمتوں میں دکن کے حیدرآباد | ایک واحد چراغ تھا نہ رہا
تھا معطر شامِ جاں جس سے | ہند میں ایک باغ تھا نہ رہا
سقوط حیدرآباد کے چند عوامل و محرکات ایسے تھے جنہوں نے زوال کے راستے ہموار کیے۔ اسباب زوال کے بارے میں اہل دانش کے جو تاثرات ہے وہ ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں۔
1) حکمران اور اسکے درباری حکمراں اگر رعایا پرور اور صاحب ضمیر ہو بھی، تو اپنے طالع آزما درباریوں کی سازشوں میں گھر جاتا ہے، بعینہ یہی صورت حیدرآباد کی تھی، خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے ضمیر فروشوں کی وجہ سے شاہان آصفیہ کے مزاج اور رجحانات مسلسل اثر انداز ہوتے رہے، اور حکمراں خود اپنی حکومت کے حریف بن گئے، اور حکومت مختلف قوتوں کی رزم آرائیوں کا اکھاڑہ بن کر کمزور پڑ گئی۔
2) امراء اور جاگیردار پانگاہ کے امراء نظام کے بہت عزیز تھے، انکے تصرف میں وسیع و عریض علاقے تھے، جس میں وہ من مانی حکومت کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آگے چل کر ان کی اولاد میں کوئی امتیازی خصوصیت باقی نہ رہی، عیاشی اور جوا بازی وغیرہ ان کا محبوب مشغلہ تھی، اسی طرح حیدرآباد کے جاگیردار طبقہ کے افراد بھی اپنے متعلقین کو کاہلی، عیاشی اور غیر فطری زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیتے تھے، کچھ کام کرنے سے انکو دور کا واسطہ بھی نہ تھا، امراء اور جاگیردار وں کا سارا انتظام منشیوں اور کارندوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کے المیہ کے بعد، تعلیم سے عاری، محنت و مشقت سے نا آشنا، خیالی دنیا کے یہ باسی سب سے زیادہ متاثر ہوۓ۔
3) کارکنان حکومت جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد سویلین طبقہ آہستہ آہستہ ریاست کے نظم و نسق پر حاوی ہوچکا تھا، اور ان کو مال ودولت جمع کرنے کا ہٹوکا لگ چکا تھا، چنانچہ انہوں نے خوشامد و چاپلوسی کو ذریعہ بنایا، اور انکا بیشتر وقت ریاست کی ترقی کے لیے حب الوطنی کے جذبے سے کام کرنے میں گزرنے کی بجاۓ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور اپنے مفاد کو پروان چڑھانے میں گزرتا۔ یہ لوگ اپنے آپ میں اتنے مگن تھے کہ حیدرآباد کے سقوط کے بعد بھی وہ بدلے ہوۓ حالات سے سمجھوتا نہ کرسکے، جس سے انہیں من حیث الجماعت کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
4) سیاست دان اور عوام حیدرآباد کے معاشرہ میں سیاست دانوں کی جڑے زیادہ مضبوط نہیں تھی، کیوں کہ قابل اور صلاحیت مند افراد سرکاری ملازمت سے منسلک تھے، اسلیے سیاست ایسے نااہل لوگوں کے ہاتھ میں تھی، جنکا قابلیت ذہانت اور کردار کے اعتبار سے کوئی مقام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ 48/47/ کے نازک دور میں جب ان کا واسطہ بھارت کے گھاگ سیاست دانوں سے پڑا تو وہ بری طرح مات کھاگئے۔ عوام کا حال یہ تھا کہ دکن میں مسلمانوں کا اقتدار کئی سو سالوں سے چلا آرہا تھا، اسلیے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں پر اجارہ داری حاصل تھی، مگر یہ صورت شہر کی حد تک ہی تھی، دیہی علاقوں میں مسلمان مالی اور معاشرتی اعتبار سے کمزور تھے، لیکن اقتدار کا نشہ ایسا تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا مسلمان بھی دیگر اقوام کے افراد سے ذلت کا برتاؤ کرتا، یہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی، کیوں کہ اگر ان طبقوں کے دل موہ لیے ہوتے تو وہ افراد جو ان کے ذلت آمیز رویہ کے زخم خوردہ تھے، ظالموں کے ساتھ مل کر ان کی بربادی میں حصہ نہ لیتے۔ بحوالہ زوال حیدرآباد کی ان کہی داستان
یہاں یہ تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ، سقوط حیدرآباد کے بعد نئی حکومت نے متعدد ایسے اقدامات کیے جس سے مسلمانوں کی معاشی اور سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی، حیدرآباد پر ہندستانی افواج کے قبضہ کرنے کے ایک ہی سال بعد 1949/ میں جاگیرداری کا نظام بھی ختم کردیاگیا، اس اقدام سے نہ صرف وہ لوگ متاثر ہوئیں جن کی زمینیں اور اراضی ضبط ہوئی، بلکہ وہ افراد اور خاندان بھی بے روزگار اور متاثر ہوۓ جو پائیگاہوں اور جاگیرداروں سے منسلک تھے، سرکاری محکموں میں مسلمانوں کا تناسب رفتہ رفتہ کم کردیا گیا، جامعہ عثمانیہ کا ذریعہ تعلیم جو اردو تھا انگریزی کردیا گیا، اور اسکا معروف و موقر ادارہ دارالترجمہ جو اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے مثالی خدمات انجام دیتا تھا، اسے اگست 1954/ میں عملا جلا دیا گیا، بلاکسی روک ٹوک کے مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی، اور ان میں بیشتر کو مندروں میں تبدیل کردیا گیا، ایسے وہ تمام قوانین منسوخ کردیے گئے، جن سے کسی بھی رخ سے مسلمان یا مسلم عبادت گاہوں کا تحفظ ہوسکتا تھا۔ حیدرآباد میں عربوں کی ایک کثیر تعداد تھی انہیں اسپیشل ٹرین میں بھرکر ملک بدر کردیا گیا، حیدرآباد کے آخری دور میں بھارت کے مختلف علاقوں سے مسلمان ہجرت کرکے چلے آئے تھے، ان سب کو بھی ملک بدر کردیا، وہ لوگ آنے سے پہلے اپنی جائیداد اور مال متاع لٹا کر آئے تھے، اب واپس جاکر خدا معلوم ان ستم رسیدہ مظلوم انسانوں کا کیا ہوا ہوگا، ایک قومی زبان کا احیاء دور عثمانیہ کا درخشاں کارنامہ تھا، بھارتی حکومت کو وطن پروری اس میں نظر آئی اور اس عظیم کارنامے کو ختم کردیا چنانچہ اردو زبان بطور ذریعہ تعلیم کالعدم قرار دی گئی، اور اسکی جگہ انگریزی زبان نے لے لی۔
sf356605@gmail.com