Skip to content
خواتین کا تحفظ اورہماری ذمہ داریاں
محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی،صحافی و ادیب،،گلبرگہ
8277465374
عالمی سطح پر خواتین کیخلاف بے تحاشہ بڑھتے جرائم ،تشدداور ظلم و بربریت سے عالم انسانیت پریشان ہے ۔گذشتہ ماہ کولکتہ کی ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والے حیوانی سلوک اور اس کے بعد اس کے دردناک قتل نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر پیدا کر دی۔ ہر جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی،انسانیت شرمندگی کے ساتھ اس حادثے پر ماتم کناں رہی۔ اس حادثہ کے بعد ایسے کئی ایک واقعات اخبارات میں مسلسل آتے رہے اور اس کے بعد منظر عام پر آنے والی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ ایسے واقعات یومیہ بڑی تعدا دمیں پیش آ رہے ہیں، اور مجرموں کو سخت سزائیں نہ ملنے کے سبب ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کیخلاف جرائم اورظلم و بربریت کے بڑھتے ہوئے حالیہ واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ صنف نازک کو ماں کے پیٹ سے لے کر قبر تک کہیں بھی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ معاشرے میں وحشی درندے خواتین کی عزت اور وقار کو پامال کرنے بے لگام گھوم رہے ہیں اور ان کے ظلم کا شکارہونے والوں میں کمسن بچیوں سے لے کر ضعیف خواتین سب شامل ہیں۔ یہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے اس کو روکنے کیلئے ان مجرموں کو عبرتناک سزائیں دینا ضروری ہے۔لیکن ایسے حادثات پر بھی سیاست ہوتی ہے،ظالم اپنے اثر و رسوخ اور دولت کے سہارے بچ جاتے ہیں بلکہ متاثرہ کو ہی قصوروار ٹہراتے ہیں،عوامی بے حسی اور حکومتوں کی غلط پالیسیاںاور مجرموں کی پشت پناہی جب تک ختم نہ ہوگی ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا رہیگا۔بنت حوا کی عصمتوں اور انسانی جانوں کی ارزانی اور دنیا کی خاموشی اوربے حسی افسوسناک ہے، بہتے خون اور ٹوٹتی سانسوں کا تماشہ دیکھنے والے تو بہت ہیں لیکن کوئی اس کیخلاف لڑنے والا نہیں ہے ۔اس بات کی سخت ضرورت ہیکہ ایسے حیوانوں اور درندوں کو سرعام سخت سے سخت سزائیں دے کر خواتین کیخلاف ہورہے جرائم کو ختم کیا جائے،صرف اپنے گھر کی ماں بہن بیٹیوں کی عزت کرنا کافی نہیں ہے ہر ماں بہن بیٹی کی عزت کرنا ہوگا،ہر ایک کوخواتین کے حقوق کا تحفظ ان کی زندگی کو محفوظ اور باعزت بنانے میں اپنابھرپور کردار ادا کرنا ہوگا ،کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ خواتین کا تحفظ اور ان کی عزت نہ کرے۔خواتین کیخلاف جرائم اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ دور جہالت میں بھی حالات اس سے اچھے ہی رہے ہونگے ۔یہ حالات اتنے ابتر کیوں ہوگئے غور کریں تو ایک سبب نئی تہذیب کا منفی اثر ہے اور اس کا دوسرا سبب نا انصافی ،ظلم و زیادتی ہے۔نئی تہذیب نے لوگوں کے ذہنوں کو تباہ کرنے کا پورا سامان تیار کیا ہے ۔یہ ایک فتنہ ہے جسے وقت سے پہلے سمجھنے کی ضرو رت ہے۔جدید تہذیب کے اس فتنے اور منافقانہ رویہ سے دنیا معاشرتی برائیوں کا جہنم بنتی جاری ہے ۔بہت سے لوگوں کو اب احساس ہورہا ہیکہ مغربی تہذیب ایک کھوکھلی تہذیب ہے۔اس کا سارا رومانس ریاکاری تصنع، فحاشی اور کمزوروں کے استحصال پر منحصر ہے۔اب وہ ایک ایسی تہذیب کو اپنانا چاہتے ہیں جو پاک ہے ، نجات دہندہ ہے اور وہ تہذیب صرف اور صرف مذہب اسلام میں ہے ۔
مذہب اسلام سے قبل خواتین کی حالت انتہائی خراب تھی، مگر اسلام نے انہیں بلند مقام عطا کیا۔ قرآن مجید اور احادیث میں متعدد مقامات پر خواتین کی عزت و حقوق کے بارے میں واضح احکامات دیے گئے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، ان کی تربیت کی اور ان کی شادی کی، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔” ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔” یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ اسلام میں خواتین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی عزت و وقار کو کتنا اہمیت دی گئی ہے۔ خواتین کی عزت ایک بنیادی اخلاقی اور سماجی قدر ہے جو ہر معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو وہ احترام، حقوق اور مقام دیا جائے جس کی وہ مستحق ہیں۔ ان کی رائے کا احترام کیا جائے، اور انہیں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر برابر کا حصہ دار تسلیم کیا جائے۔ خواتین کو عزت دینا ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کی علامت ہے۔ خواتین کی عزت اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ جب خواتین کو ان کے تمام حقوق فراہم کیے جائیں، جن میں تعلیم، روزگار، صحت، اور زندگی کے تمام اہم شعبوں میں مساوی مواقع شامل ہوں، تو وہ خود مختار، خوشحال اور معاشرے کے لیے قیمتی سرمایہ بنتی ہیں۔خواتین کی عزت کے لیے قانونی تحفظ بھی ضروری ہے۔ قوانین کا موثر نفاذ اور ان کے حقوق کا تحفظ ہی ان کی عزت کو یقینی بنا سکتا ہے۔ معاشرے کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی خواتین کو کیا مقام دیتا ہے اور ان کے حقوق کا کس طرح خیال رکھتا ہے۔ جب خواتین کو عزت دی جاتی ہے، تو معاشرہ انصاف، محبت اور امن کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ خواتین کی عزت کی بنیاد گھر سے شروع ہوتی ہے۔ گھر کے مردوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیویوں، ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئیں، ان کی رائے کو اہمیت دیں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ یہ رویہ گھریلو امن اور سکون کے لیے ناگزیر ہے۔اسی طرح، تعلیمی اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ خواتین کو عزت دیں اور انہیں ایک محفوظ اور حوصلہ افزا ماحول فراہم کریں۔ تعلیم خواتین کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ان کی معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیمی ادارے خواتین کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے اہم ہیں۔کام کی جگہ پر خواتین کی عزت کا مطلب یہ ہے کہ انہیں برابری کے مواقع فراہم کیے جائیں اور ہر قسم کی ہراسانی سے محفوظ رکھا جائے۔ خواتین کی صلاحیتوں کا اعتراف اور ان کو مساوی مواقع دینا، نہ صرف ان کی عزت کا حصہ ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔
اسلام میں بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم تربیت کو والدین کے بنیادی فرائض میں شامل کیا گیا ہے ،بیٹی کی عزت اور حقوق کی پاسداری والدین کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ تعلیم حاصل کی ہوئی ایک اچھی تربیت یافتہ بیٹی نہ صرف اپنے والدین کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے فخر کا باعث بنتی ہے۔ بیٹیاں اپنے والدین کے لیے محبت، خوشی اور سکون کا سبب ہوتی ہیں اور ان کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہیں۔بیٹی ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور دل کا سکون ہوتی ہے، اور معاشرتی ترقی کے ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔بیٹیاں مستقبل کی مائیں ہوتی ہیں اور ایک نسل کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔بیٹی کو ہمیشہ محبت، عزت اور حقوق دینا چاہیے تاکہ وہ معاشرتی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکے۔ معاشرتی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو خود مختار، تعلیم یافتہ اور اعتماد سے بھرپور بنائیں۔ جب بیٹیاں تعلیم یافتہ اور خود مختار ہوتی ہیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے،اسلام میں تعلیم کی بے حد اہمیت ہے اور لڑکیوں کے لیے یہ خاص طور پر اہمیت رکھتی ہے،لڑکیوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ان کی معاشرتی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔تعلیم کے ذریعے لڑکیوں کو ان کے حقوق اور عزت نفس کا شعور دینا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت خود کر سکیں اور معاشرے میں اپنے مقام کا بھرپور ادراک رکھ سکیں۔ تعلیم کے ذریعے خواتین کو نہ صرف ذاتی خود مختاری حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے خاندان اور معاشرے کی ترقی میں بھی موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم میں نہ صرف نصابی علم بلکہ زندگی کی مہارتیں، ٹیکنالوجی کی تربیت، اور عملی تجربات شامل ہونے چاہئیں۔ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر لڑکیوں کو ڈیجیٹل مہارتوں اور جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دینا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ ترقی کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔بہتر گفتگو کی مہارتیں بھی لڑکیوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انہیں موثر انداز میں بات چیت کرنے، اپنی بات کو سمجھانے اور دوسروں کو سننے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ سماجی زندگی میں بہتر کردار ادا کرنے کے لیے لڑکیوں کو سماجی تربیت دینا بھی لازمی ہے، تاکہ وہ دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں، تعاون کریں، اور معاشرتی ذمہ داریاں نبھائیں۔مزید برآں، جسمانی اور ذہنی صحت کی تعلیم بھی ضروری ہے،موجودہ دور میں خود دفاع کی تربیت بھی لڑکیوں کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ وہ کسی بھی خطرے کی صورت میں اپنا دفاع کر سکیں۔ لڑکیوں کو صحت مند غذا، صفائی اور ورزش کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کو صحت مند اور خوشگوار بنا سکیں۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوتی ہے اور اپنے حقوق کی حفاظت بھی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں خواتین مختلف پیشہ ورانہ شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جب خواتین کو مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔اس کے علاوہ لباس کے معاملہ میں بھی انہیں اسلامی مزاج و معیار پر قائم رکھیں یہ بہت ضروری ہے ،حضرت مولانا غیاث احمد رشادی صاحب نے گلبرگہ میں خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لباس کا بنیادی مقصد حیاء یعنی جسم کو چھپانا ہے اور یہ ہمارے ہندوستان کا کلچر ہیکہ حیا والا لباس یہاں عام ہے ،یہاں ہر مذہب کے لوگوں میں حیا والا لباس پہننے کا مزاج عام ہے اور جو مغربی تہذیب کا لباس ہے وہ آداب زندگی اور انسانیت کیخلاف ہے ،خاص کر خواتین اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق لباس کا انتخاب کریں ۔بچپن سے ہی اپنی بچیوں کا مزاج بنائیں کہ وہ حیاء والا لباس پہنیں ،حیا و شرم اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔اخلاقی اور مذہبی تعلیم لڑکیوں کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ انہیں دیانت داری، سچائی، احترام اور دیگر اخلاقی اقدار کی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ معاشرتی اور دینی اصولوں کی روشنی میں ایک بہتر انسان بن سکیں۔ آج دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم، صحت اور حقوق کے حوالے سے متعدد مہمات چلائی جا رہی ہیں، تاکہ ہر لڑکی کو اس کا جائز مقام مل سکے۔
معاشرے کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس میں خواتین محفوظ نہ ہوں اور انہیں عزت و احترام نہ دیا جائے۔ صنفی مساوات اور روایتی امتیازات کا خاتمہ خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔ قوانین کا موثر نفاذ اور خواتین کے حقوق کا تحفظ ان کی زندگی کو محفوظ اور باعزت بناتا ہے۔ اگرچہ بہت سے ممالک میں خواتین کے حقوق قانونی طور پر محفوظ ہیں، لیکن بہت سے علاقوں میں ان قوانین کا موثر نفاذ ایک بڑا چیلنج ہے۔خواتین کے خلاف منفی رویے سنگین مسئلہ ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا تاکہ ہر لڑکی اپنی زندگی آزادانہ اور باعزت طریقے سے گزار سکے۔ جب لڑکیوں کے خلاف مسلسل منفی رویے روا رکھے جاتے ہیں تو وہ خوف اور دباو کے ماحول میں زندگی گزارتی ہیں۔ ان رویوں کا ان کی شخصیت، ذہنی صحت، اور عزت نفس پر منفی اثر پڑتا ہے۔کچھ معاشرتی روایات بھی خواتین کے خلاف منفی رویوں کو فروغ دیتی ہیں، جیسے کم عمری میں شادی اور ان کی رائے کو اہمیت نہ دینا۔ اس سے ان کی تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی جیسے مسائل بھی خواتین کو درپیش ہیں، جن سے ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے اور وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔عوامی سطح پر صنفی برابری اور خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ ۔ میڈیا بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ فلموں، ڈراموں، اور اشتہارات کے ذریعے خواتین کی عزت اور مقام کو فروغ دینا چاہیے اور ایسا مواد نشر کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو خواتین کی تذلیل کرتا ہو۔معاشرتی تنظیموں اور کمیونٹی کے لوگوں کو بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہوگا ۔ صنفی امتیاز ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے خواتین کو تعلیمی، پیشہ ورانہ، اور دیگر مواقعوں میں مردوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ لڑکیوں کو ان کے حقوق اور صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔تعلیمی اداروں، دفاتر، اور عوامی مقامات پر خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی ناگزیر ہے۔ ہسپتال، ادارے، عوامی مقامات جیسے پارکس، سڑکیں، اور پبلک ٹرانسپورٹ کو محفوظ بنانا بھی اشد ضروری ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرے، روشنیاں، اور سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی سے ان مقامات کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو خواتین کے تحفظ کے لیے موثر قوانین بنانے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے ،خواتین کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ قانونی نظام کو مضبوط کیا جائے۔ جنسی ہراسانی، عصمت دری،تشدد اور دیگر جرائم کے خلاف سخت قوانین اور ان کا موثر نفاذ یقینی بنایا جائے تاکہ خواتین کی عزت محفوظ رہے،ساتھ ہی متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے قانونی نظام کو فعال و شفاف بنایا جانا چاہیے۔ سخت قوانین اور ان کے مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے تاکہ مجرموں کو سخت سزائیں دی جا سکیں اور متاثرہ افراد کو تحفظ اور انصاف فراہم کیا جاسکے۔خواتین کیخلاف جرائم ،تشدداور ظلم و بربریت کا یہ مسئلہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شمار ہوتا ہے، اور اس کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر ہی حکومتوں، معاشروں، اور افراد کو مل کر کام کرنا ہوگاتاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جس میں خواتین عزت و احترام کے ساتھ محفوظ زندگی گزار سکیں۔
Like this:
Like Loading...