Skip to content
جمعہ نامہ:
رحمت و رفعت اور دعوت و اقامت
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’اور ہم نے آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘۔ رب العالمین نے نبیٔ اکرم ﷺ کو رحمت العالمین بناکر پوری عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا۔ آپؐ نے بھی اپنا تعارف اسی طرح فرمایا کہ:’’میں تو صرف رحمت وہدایت ہوں‘‘۔ ایک موقع پر اصحاب رسول ﷺ نے کافروں کے لیے بدعا کی استدعا کی تو فرمایا :’’میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ میلاد نبی ﷺ کے موقع پر غیر مسلمین کی محفل میں اس آیت کو پیش کرکے سیرت نبویؐ میں حسنِ سلوک کے کچھ واقعات پر اکتفاء کرلیاجاتا ہے بلکہ اب تو یہ کہنے کا چلن بھی ہوچلا ہے کہ ہم دین اسلام کی تبلیغ نہیں کررہے ہیں حالانکہ اس آیت کے فوراً بعد دعوت دین کا حکم دیا گیا ہے ۔فرمانِ قرآنی ہے:’’ آپ کہہ دیجئے کہ ہماری طرف صرف یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ایک ہے تو کیا تم اسلام لانے والے ہو‘‘۔ یعنی خدائے واحد کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کی دعوت ہی رحمت عالم کو عام کرنے کا پہلا قدم ہے۔
عصرِ حاضر میں دعوت اور زور زبردستی کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے حالانکہ آگے والی آیت اس سے منع کرتی ہے ۔ ارشادِ حقانی ہے:’’پھر اگر یہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیجئے کہ ہم نے تم سب کو برابر سے آگاہ کردیا ہے،اب مجھے نہیں معلوم کہ جس عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور ہے ‘‘۔ یعنی لوگوں کو عذابِ آخرت سےخبردار کردینے کے بعد ذمہ داری ادا ہوجاتی ہے ۔ دعوت دین کی مزاحمت اور ریشہ دوانیوں کے جواب میں توکل علی اللہ کی تلقین اس طرح کی گئی ہے کہ:’’بیشک وہ خدا ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کا اظہار کیا جاتا ہے اور ان باتوں کو بھی جن کو یہ لوگ چھپارہے ہیں‘‘۔دعوت کی مخالفت میں عذاب کی جلدی مچانے والوں کو یہ جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے کہ:’’میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر) تمہارے لیے ایک فتنہ ہے اور تمہیں ایک وقت خاص تک مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے ‘‘۔
اس سلسلۂ آیات کا اختتام رجوع الی اللہ کی نصیحت پر ہوتا ہے فرمایا :’’پھر پیغمبر نے دعا کی کہ پروردگار ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور ہمارا رب یقیناً مہربان اور تمہاری باتوں کے مقابلہ میں قابل استعانت ہے ‘‘۔ یعنی دعوت کی مخالفت سے حفاظت کے لیے ربانی استعانت کا فی ہے۔ سیرت نبویﷺ میں وہ مرحلہ بھی آیا کہ ہجرت نبوی ﷺ کے بعد بھی مخالفین کے کلیجے ٹھنڈے نہیں ہوئے ۔ طبرانی میں درج ہے کہ ابو جہل نے کہا :’’اے قریشیو! محمد ﷺ یثرب چلے گئے۔ وہ تمہاری جستجو میں اپنےچھاپہ مار لشکربھیج ر ہے ہیں ۔ دیکھو ہوشیار رہنا وہ بھوکے شیر کی طرح تاک میں ہیں کیونکہ تم نے انہیں نکال دیا۔وہ خار کھائے ہوئے ہیں ،واللہ ان کے جادوگر بے مثال ہیں‘‘ ۔ اس شیطان صفت انسان نے یہاں تک کہا کہ:’’مجھے ان کے اور ساتھیوں کے ساتھ شیطان نظر آتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد دعوت اسلامی کی ترویج واشاعت کوسیاسی رنگ دے کر بولا ’’ اوس اور خزرج ہمارے دشمن ہیں اس دشمن کو ان دشمنوں نے پناہ دی ہے‘‘۔
ابو جہل کی ان جاہلانہ باتوں کے جواب میں وہاں موجود مطعم بن عدی نےکہاکہ :’’اے ابو الحکم سنو میں نے تمہارے اس بھائی سے جسے تم نے اپنے ملک سے جلا وطن کر دیا ہے کسی کو زیادہ سچا اور وعدے کا پابند نہیں پایا۔ اب جب کہ ایسے بھلے آدمی کے ساتھ تم یہ بدسلوکی کر چکے ہو تو انہیں چھوڑدو اور ان سے کنارہ کش ہوجاو۔ اس پر ابوسفیان بن حارث کہنے لگا نہیں تمہیں اس پر پوری سختی کرنی چاہیئے۔ یاد رکھو اگر اس کے طرفدار تم پر غالب آ گئے تو تم کہیں کے نہیں رہو گے۔ وہ نہ رشتہ دیکھیں گے اور نہ کنبہ، میری رائے میں تو تمہیں مدینے والوں کو تنگ کر دینا چاہیئے کہ یا تو وہ محمد ﷺ کو نکال دیں اور وہ تنہا ہو کر گوشہ نشین ہو جائیں بصورتِ دیگر مدینے والوں کا صفایا کر دیاجانا چاہیئے‘‘۔ اس نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر تم تیار ہو جاؤ تو میں مدینے کہ کونے کونے پر لشکر بٹھادوں گا اور انہیں ناکوں چنے چبوا دونگا۔
اُس سنگین صورتحال میں نبی کریم ﷺ نے جوموقف اختیار کیا وہ اِ س دورِ پرفتن میں اہل ایمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ محمد عربی ﷺ نے فرمایا کہ :’’اللہ کی قسم جس کےقبضے میں میری جان ہے میں ہی انہیں قتل وغارت کروں گا اور قید کر نےکے بعد پھر احسان کر کے چھوڑدوں گا(کیونکہ) میں رحمت ہوں‘‘۔ یعنی مقابلہ آرائی کے دوران تو جنگ و جدال ہوگا مگر بعد میں جب صلح صفائی کے بعد امن قائم ہوجائے گا تو جذبۂ رحمت کے تحت ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا جائے گا۔اس کے بعد نبیٔ پاک ﷺ نے وہ عظیم بشارت دی کہ جس کا اُس وقت تصور بھی محال تھا اورموجودہ دور میں بھی امت مسلمہ اسے فراموش کرچکی ہے ۔ آُ پ ﷺ نے فرمایا:’’ میرا بھیجنے والا اللہ ہے وہ مجھے اس دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک اپنے دین کو دنیا پر غالب نہ کر دے‘‘۔
اس بشارت کی حقیقت یہ ہے کہ دین حق بالآخر غالب ہوکر رہے گا اور یہی رفعت و سربلندی دعوت سے شروع ہونے والی رحمت کی انتہا ہے۔ دین اسلام جب قائم ہوجاتاہے تو انسانیت کی راہوں میں حائل ، لسانی ، قومی اور جغرافیائی حدود و قیود مٹ جاتے ہیں ۔ وحدت الہ و بنی آدم کےعقیدے کی بنیاد تفریق و امتیاز اور اونچ نیچ کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ انسانی مساوات کا وہ نظام قائم ہوجاتاہے جس میں بندہ و آقا ، امیر و غریب سب کوعدالت کے اندر ایک ہی قانون کے ماتحت کردیا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ ہوچکا ہے اور مستقبل میں بھی ہوسکتا ہے بشرطیکہ اہل ایمان دعوت دین سے اقامت دین تک کا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے رحمت عالم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر نظام حق کو غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اللہ کی مدد و استعانت ان کے شاملِ حال ہوگی اور عالم انسانیت کو طاغوت کے جبرو استبداد سے راہِ نجات مل جائے گی ۔
Like this:
Like Loading...