Skip to content
ہماچل پردیش میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور کانگریس
ازقلم:شیخ سلیم
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا
سنجولی، ہماچل پردیش میں ایک مسجد جو وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے، اس کے خلاف ایک تحریک چلائی جا رہی ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے کاروبار کے بائیکاٹ کی بات کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو بنگلہ دیشی روہنگیا کہہ کر نفرت کا ماحول بنایا جا چکا ہے، مگر ہماچل پردیش میں بڑھتی ہوئی اس نفرت، مظاہروں، اور بائیکاٹ کے معاملے پر کانگریس کے سینئر مسلم رہنما خاموش کیوں ہیں؟ یہ واقعی تشویش کا باعث ہے۔ اگر ان رہنماؤں پر دباؤ ڈالا جائے، تو وہ راہل گاندھی سے بات کریں گے اور کانگریس ان مسائل پر سنجیدگی سے مداخلت کرے گی۔ آئیے اس پورے معاملے کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
ہماچل پردیش میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی وارداتیں، انہیں روہنگیا اور بنگلہ دیشی کہہ کر نشانہ بنانا، لِنچنگ کے لیے ماحول بنانا، اور سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی مہم چلانا ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ یہ واقعات ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کا حصہ ہیں۔ ایسے اقدامات کا مقصد سماج میں مسلمانوں کو کنارے پر دھکیلنا اور انہیں غیر محفوظ محسوس کرانا ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کے سینئر مسلم رہنما جیسے ناصر حسین اور سلمان خورشید، جو راجیہ سبھا کے ممبر اور کانگریس ورکنگ کمیٹی (CWC) کے رکن ہیں، اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دے رہے ہیں۔ یہ خاموشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے، کیونکہ ان رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کریں اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائیں۔
کانگریس کی اعلیٰ قیادت، خاص طور پر راہل گاندھی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے معاملات میں مداخلت کریں گے، کیونکہ کانگریس خود کو ایک سیکولر جماعت کے طور پر پیش کرتی ہے جو تمام کمیونٹیوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کانگریس کے سینئر مسلم رہنما ہی اس مسئلے پر سرگرم نہیں ہوں گے، تو راہل گاندھی یا پارٹی قیادت کب اور کیسے ان مسائل پر توجہ دے گی؟
یہ تجویز دی جاتی ہے کہ اگر عام لوگ، خاص طور پر مسلمان، ان سینئر رہنماؤں سے سوال پوچھیں اور انہیں جوابدہ ٹھہرائیں، تو اس دباؤ کی وجہ سے یہ رہنما کانگریس کی اعلیٰ قیادت تک یہ پیغام پہنچا سکیں گے کہ ہماچل میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی وارداتوں پر پارٹی کو سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دباؤ کی بدولت کانگریس شاید ان مسائل پر زیادہ فعال کردار ادا کر سکے۔
مسلمانوں کی امیدیں اس بات پر منحصر ہیں کہ ان کے کمیونٹی کے رہنما ان کی آواز کو بلند کریں۔ اگر یہ رہنما اپنی کمیونٹی کی تشویشات پر خاموش رہتے ہیں، تو کمیونٹی کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ ان کے مسائل کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اگر کمیونٹی کے لوگ ان رہنماؤں سے براہِ راست سوالات کریں اور انہیں جوابدہ بنائیں، تو ممکن ہے کہ کانگریس اس معاملے میں مداخلت کرے اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہے مظالم پر سخت موقف اختیار کرے۔
مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے صرف رہنماؤں پر منحصر رہنا کافی نہیں ہے۔ عوام کو بھی اپنی سیاسی شراکت داری اور آگاہی کو بڑھانا ہوگا۔ سیاسی دباؤ اور منظم مہم ہی کسی جماعت کو ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے اور کارروائی کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ اگر کانگریس کے سینئر مسلم رہنما سرگرم ہو جائیں اور راہل گاندھی تک یہ معاملہ لے جائیں، تو پارٹی اس مسئلے پر اقدامات کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے کمیونٹی کو ان رہنماؤں کو جوابدہ بنانا ہوگا اور ان سے سوالات کرنے ہوں گے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کانگریس کو مسلمانوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے مجبور کریں۔
Like this:
Like Loading...