اسلام کی انقلا بی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور اصل مرتبہ عطا کیا ۔جس کی نظیر دنیا کے کسی بھی مذہب میں موجود نہیں۔
:مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ کا بیان
حیدرآباد27؍ ستمبر 2024ء
حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسلام نے حقوق کی ادائیگی اور عدل ومساوات کے قیام کو بڑی اہمیت دی ہے، اسلام نے انسان وحیوان، مسلم وغیر مسلم، مرد وعورت، امیر وغریب، چھوٹے بڑے، حاکم ومحکوم، اور اعلی وادنی ہر ایک کے حقوق کو جس قدر بسط وتفصیل سے بیان کیا ہے، پورے عالم کا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا اور نہ اس کی برابری وہمسری کر سکتا ہے؛ اس لیے کہ اسلام کا آئین وہ آئین ہے جسے احکم الحاکمین اور عالم الغیب والشہادہ نے بناکر نازل فرمایا ہے، جس کے قول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ وہ ذات ازل سے لے کر ابد تک کا علم رکھتی ہے،اس لیے اللہ تعالی نے اسلام کے جتنے احکام نازل فرمائے ہیں، سب انسان کے موافق ہیں اور ہر دور اور ہر زمانے کے حالات اور مقتضاء کے عین مطابق ہیں، ابدی ہیں اور دائمی بھی۔
لہٰذا اسلام نے عورتوں اور خواتین کے لیے جو حقوق متعین کیے ، وہ ان کے حالات، طبیعت اور جسمانی وذہنی ساخت اور جبلت وخلقت کے بالکل موافق ہیں۔ اسلام نے ان کو نہایت ہی بلند وبالا مقام سے نوازا ہے، دیگر اقوام عالم کی طرح ان کو محض خادمہ کی حیثیت نہیں دی، یا ان کو محض تفریحِ طبع کا سامان تصور نہیں کیاہے؛ بلکہ اسلام نے ان کو معاشرے اور سماج میں باوقار اور باعظمت افرادکے زمرے میں داخل کرکے حقِ مساوات وبرابری کا نظریہ پیش کیا۔ایک عورت اور خاتون اس کی زندگی کے مختلف مراحل اور ادوار ہوتے ہیں، جب وہ جنم لیتی ہے تو وہ بچی اور لڑکی ہوتی ہے،
اسلام نے اس کے حق کو بھی بیان کیا، جب وہ جوان ہوتی ہے،اس کے بھی حق کو بیان کیا، جب شادی ہوکر بیوی بن جاتی ہے تو شریعت نے بیوی کے حق کو بھی بیان کیا، اور اس کے بچہ ہونے کے بعد جب وہ ماں بن جاتی ہے تو اسلام نے ماں کے حقوق کو بھی بیان کیا، جب عورت کا شوہر مر جائے اور وہ بیوہ ہوجائے تو اسلام نے بیوہ کے حق کو بھی بیان کیا، کسی بچی کا باپ مرجاتا ہے اور وہ یتیم ہو جاتی ہے تو اسلام نے اس کے حقوق کو بھی بیان کیا،لہٰذا کوئی مذہب یا قانون تحفظ حقوق خواتین کے بارے میں اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں عورت کی حالت بدترین تھی اس کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا اور اس کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں تھی ، اور نہ ہی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اللہ تعالی کا عورت پر یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے نبی حضور ﷺ کو دنیا میں بھیجا جنہوں نے عورت کو معاشرے میں وہ عزت دلائی جس کی وہ حقدار تھی۔ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی نا پسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے
غرض یہ اسلام نے عورت کو وہ مقام بخشا ہے جس کی وہ حقدار تھی اوراسلام ان تمام الزامات کا بھی رد کرتا ہے جو دوسرے لوگوں کی طرف سے یا مستشرقین کی طرف سے اسلام پر لگائے جاتے ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔اسلام نے نہ صرف ان تمام الزامات کا رد فرمایا بلکہ دنیا کے سامنے عورت کو وہ مقام مرتبہ فراہم کیا جس کی نظیر دنیا کے کسی بھی مذہب میں موجود نہیں۔
آج سے چود سو برس پہلے عہد جاہلیت میں اسلام کی انقلا بی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور اصل مرتبہ عطا کیا۔اپنے آغاز سے لیکر آج تک ،اسلام کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ خواتین کے حوالہ سے ہماری سوچ ہمارے خیالات ہمارے احساسات اور ہمارے طرز زندگی میں بہتری لائی جائے اور معاشرے
میں خاتون کا مقام بلند سے بلند تر کیا جائے۔