مولانا محمود مدنی صاحب نے سشانت سنہا کو جو کے گودی میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں اسلام دشمنی کا امیج رکھتے ہے،ایک انٹرویو دیا ہے جسمیں اسد الدین اویسی صاحب کی مجلس اتحاد المسلمین پر کافی تنقید کی گئی ہے۔ انہیں حیدرآباد دکن تک محدود رہنے کے مشورے دیے ہیں دوسری ریاستوں میں مجلس اتحاد المسلمین کے انتخابات لڑنے پر تنقید کی گئی ہے۔
تاریخی حقیقت ہے جمعیت علمائے ہند کی طرف سے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ 77 سال پہلے دیا گیا تھا، اور اس کا اثر آج بھی کئی حلقوں میں بحث کا موضوع ہے۔ اس پالیسی کے نتائج کچھ اچھے نہیں رہے، سیاست سے دوری کے مشورے کی وجہ سے مسلمانوں کا سیاسی سطح پر اثر و رسوخ کم ہواہےاور اس سے نہ صرف مسلم سیاسی قیادت کا فقدان رہا، بلکہ ان کے حقوق اور نمائندگی بھی محدود ہو گئی۔
جمعیت علمائے ہند نے ہمیشہ کانگریس کی غیر مشروط حمایت کی اور مسلمانوں کو بھی اس کی پیروی کرنے کا کہا۔ لیکن بعد میں، جب کانگریس نے سیکولرزم کے نام پر کئی ایسے فیصلے کیے جو مسلمانوں کے مفاد میں نہ تھے، تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
جمعیت علمائے ہند میں اندرونی جمہوریت نہ ہونے کے برابر ہے،،تنظیم کی قیادت عام طور پر کچھ خاص خاندانوں یا افراد کے پاس ہمیشہ رہی، جس سے تنظیم میں نئی سوچ اور قیادت کو سامنے آنے کا موقع کم ملا۔
آج کے دور میں جمعیت علمائے ہند کی اہمیت اور افادیت میں کمی آئی ہے نئی قیادت اور تحریکوں کا ظہور ہوا ہے مسلمانوں میں کئی نئی تحریکیں اور تنظیمیں سامنے آئی ہیں جو مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کر رہی ہیں۔
نئی نسل کا بدلتا نقطہ نظر: نوجوان نسل کے نظریات بدل چکے ہیں اور وہ اپنے حقوق اور نمائندگی کے لیے مزید فعال اور متحرک تنظیموں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
کیا یہ عوامل جمعیت علمائے ہند کی موجودہ حیثیت کو متاثر نہیں کر رہے ہیں، اور ان کی پالیسیوں پر ازسر نو غور کی ضرورت نہیں ہے۔مولانا محترم کا کہنا ہے اسد الدین اویسی کی سیاست بانٹنے والی سیاست ہے اس سیاست سے صرف مجلس اتحاد المسلمین کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ حیدرآباد کے علاوہ کہیں بھی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ مولانا کے بیان کا ایک ہی مطلب نکالا جائیگا مسلمان بحثیت قوم صرف کانگریس کے دامن میں پناہ لے لیں یا انڈیا اتحاد کے ساتھ ہو جائیں اپنی لیڈرشپ پر بھروسہ نہیں کریں اپنے آپ کو نام نہاد سیکولر اتحاد کے حوالے کر دیں اور سیکولر اتحاد پر بھروسہ کریں۔مگر میں معذرت کے ساتھ مولانا محترم محمود مدنی صاحب سے گذارش کرتا ہوں آپ کی جمیعت علماء ہند نے ستر پچہتر سال جو یک طرفہ تعلقات کانگریس سے اور کنگریسیوں سے استوار کر رکھے تھے اُسکے نتیجے میں ملت اسلامیہ کے مسائل بڑھے ہیں یا کم ہوۓ ہیں مسلمانوں کی پارلیمینٹ اور اسمبلیوں میں کم ہوۓ ہیں یا نہیں۔
اب جب کے بھاجپا کے خلاف کوئی سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنتا ہے تو کیا مسلمانوں سے سیاسی اچھوتوں کی طرح برتاؤ نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ اُتر پردیش اور مہاراشٹرا میں مسلمانوں کو اسٹیج پر بیٹھانا بھی گوارا نہیں ہے آگے کے مسائل کا تذکرہ کیا خاک کریں۔ ایسے میں مسلمانوں کو چھوٹی چھوٹی جماعتوں پر جیسے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا اور مجلس اتحاد المسلمین کیا ان کی لیڈر شپ پر بھروسہ کرکے اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے ان پارٹیوں کے ہاتھ مضبوط بنانے کی ضرورت نہیں ہے بجائے اسکے کی انڈیا اتحاد کے پیچھے ایسے بھاگیں جیسے پیاسا سراب کے پیچھے بھاگتا ہے ۔