انسان کو دنیا میں جن رشتہ داریوں اور تعلقات سے وابستگی ہوتی ہے ان رشتہ داریوں میں ایک نہایت ہی قریب رشتہ بھائی اور بہنوں کا ہوتا ہے یہ بھائی اور بہن اگر حقیقی ہوتے ہیں تو یہ رشتہ نہایت ہی مستحکم ہوتا ہے آپس میں محبت و مودت ہمدردی و غمگساری کا جذ بہ غالب رہتا ہے ہمہ تن ایک دوسرے کی فکر سوار رہتی ہے ایک دوسرے کا خیال رہتا ہے اور اگر یہ رشتہ چچیرے خلیرے اور رضاعی بھائی بہنوں کا ہوتا ہے تب بھی وہی انسیت اور اپنائیت برقرار رہتی ہے اس سلسلے میں ہمارے لیے بہترین نمونہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے جنہوں نے اپنے رضاعی بھائی اور چاچا زاد بھائیوں کے ساتھ کیسا حسن سلوک کیا اور اپنی رضائی بہنوں کے ساتھ کیسے مشفقوں و مہرباں بن کر دکھایا اور کیسے بہنوں کا اکرام کیا اور بہنوں نے بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنی محبت کی کتنے لاڈ پیار سے بھائی کی پرورش کی۔
حضرت شیما رضی اللہ عنہا کی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت
چنانچہ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن حضرت شیما تھی جو حلیمہ سعدیہ کی بیٹی تھی، وہ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو گود لیتیں اور یہ لوری پڑھا کرتی تھی جس میں سادگی اور اظہار محبت جھلکتی تھی وہ فرماتی تھی:
هذا اخ لى لم تلده امي وليس من نسل ابی و عمی۔
یہ میرے بھائی میں ان کو میری ماں نے نہیں نا اور نہ یہ میرے باپ اور چچا کی اولاد سے ہیں
فَأَئمه اللَّهِ قِيمَاني ”
اے اللہ! اس کی آپ بہتر نشود نما فرمائیں جس صورت میں آپ بچے کی اچھی نشو و نما کرتے ہیں۔
اور کبھی وہ اپنے اس رضاعی بھائی کے لیے یوں دعا کرتیں:
يَا رَبَّنَا ابْنِ لَنَا مُحَمَّدًا
اے رب! میرے محمد کو زندہ رکھ، احَتی أَراه يَا فِعًا وَ أَمْرَدًا۔
یہاں تک کہ میں اس کو جو ان دیکھوں۔
ثُمَّ أَراه سَيِّدا مسودا۔
پھر میں اس کو معزز اور سردار دیکھوں۔
حضرت شیماء در نبی پر
اور جب اہل اسلام بنو ہوازن سے نبرد آما ہوئے اور ان کے قبیلے پر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو اللہ نے مسلمانوں کو بہت سارا مال غنیمت عطا کیا اور اس قبیلے کے چھ ہزار قیدی پکڑے گئے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے جن میں یہی رضائی بہن حضرت شیما بھی تھی یہاں رک کر ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جو لوگ بہن کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں جب بہن پر مصیبت آتی ہے آفت آتی ہے اور وہ سسرال سے اپنے گھر کو مدد کے لیے آتی ہے تو بھائی کہتا ہے کہ بہن تیری یہاں پر کوئی امداد نہیں کی جائے گی تیری اصل مددگار تیر اسسرال ہے وہاں تجھے مدد ملے گی یہاں تجھے کوئی امداد نہیں ملے گی کوئی مدد کی توقع بھی نہ رکھنا بد کلامی بد اخلاقی سے پیش آکر بہن کو اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں بہین مایوس ہو کر چلے جاتی ہے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت شیما پر مصیبت آئی تو انہوں نے ایک بھائی ہونے کا فرض کیسے نبھایا کیسے حضرت شیما رضی اللہ عنھا کا اکرام کیا کیسے ان کی تعظیم کی سیرت کی کتابوں میں ہے کہ اللہ کے نبی کو جب یقینی طور پر علم ہو گیا کہ ہاں یہی میری رضائی بہن ہے تو اللہ کے نبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بہن کے لیے اپنی چادر زمین پر بچھا دی ، اور حضرت شیما سے کہا شیما اس چادر کے او پر بیٹھو اور جو مانگو گی وہ دیا جائے گا اور جس کی سفارش کرو گی قبول کی جائے گی، ساتھ رہنا منظور ہو تو میں تمہارا ہی بھائی ہو، اور اگر اپنے قبیلہ میں جانا پسند ہوتو اس کا بھی تمہیں اختیار ہے ، بھائی کی طرف سے بہن کے لیے ایک کنیز اور تین غلام حاضر ہے اور ساتھ ہی بکریوں کا ایک ریوڑ بھی، حضرت شیماء حضور صل اللہ علیہ سلم کے حسن اخلاق سے اس قدر موثر ہوئیں کہ اسی وقت مشرف با سلام ہو گئیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ بھائی اپنے بہنوں کا یوں اکرام کیا کرتے ہیں۔
حقیقی بھائی بنودکھاوے کے بھائی مت بنو صرف بہن کے مال سے تو محبت ہے بہن سے محبت نہیں ہے مرگئی کوئی پرواہ نہیں ہے مال تو مل جائے گا اس کی امید لگائے بیٹھے ہیں دیکھا یہ جاتا ہے معاشرے میں بہنوں کو میراث سے محروم کرنے کی نا پاک سازشیں اور غلط منصوبہ بند طریقے سے بہنوں کو محروم کر دیا جاتا ہے ڈرنے کا مقام ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید بیان فرمائی ہیں کہ جو کوئی اپنے وارث کی میراث کانٹے گا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا ابن ماجہ کی روایت ہے:
من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه نمر الجنة يوم القيامه
بہنوں کو ان کا حق دینا چاہیے محروم نہ کرے، وہ بھی تو انسان ہے اس کی بھی ضروریات ہے
حقیقی بھائی بہن بنو آپس میں محبت کو ہمیشہ برقرار رکھو دلوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ محبت ہو مر جائے کوئی ایک تو دوسرے کے لیے حسرت کا باعث ہو۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اپنے بھائی عبداللہ بن ابو بکر کی وفات پر حسرت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے بھائی عبداللہ بن ابو بکر کی جب وفات ہوئی تو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان کی وفات پر کچھ اشعار کہے ان میں سے ایک شعر یہ ہے اے میرے بھائی ہم دونوں ایک مدت تک جزیمہ کے دو ہم نشینوں کی طرح ساتھ رہے یہاں تک کہ لوگوں نے کہا کہ ان میں کبھی جدائی نہیں ہوگی لیکن جدائی ہوئی تو ایسی ہوئی کہ گویا ہم نے باوجو د طویل ملاقات کے ایک رات بھی سات بسر نہیں کی یقینا جب بھائی اور بہنوں کے دلوں میں اس طریقے سے محبت ہوگی ایسی تعلقات مضبوط ہوں گے ہمدردی و غمگساری کا جذبہ دونوں کے اندر ہوگا تو یقینا ان کی جدائی پر حسرت بھی ہوگی ان کی جدائی پر انکھیں نم بھی ہوگی دل باغ باغ نہیں ہوگا۔
بہن اور بھائی ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ معاون نہیں مزاحم نہ بنیں
ایک دوسرے کے کام میں مددگار بنے مضر نہ بنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا محمد بن ابوبکر کا جب انتقال ہوا تو ان کے دو بچے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی لڑکے کا نام قاسم تھا قاسم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بلوایا اور اس کا اپنے پاس رکھا اور ان دونوں کو اپنے حجرے میں پالا کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو جب ان کو کھانا کھلانا ہوتا تو ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیتے تھی اور ایک لقمہ دوسرے کے منہ میں دیا کرتی تھی جب دونو بچے کہتے تھے کہ ہمارا پیٹ بھر گیا ہے تو پھر بچا ہوا کھا نا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ خود کھایا کرتی اپنے بھائی کی اولاد کو اس طرح پال کر دکھانا اس بات کی دلیل ہے کہ بہن کے دل میں اپنے بھائی کی کتنی محبت ہوگی۔
امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کی بہن حفصہ بنت سیرین تھی وہ قران پاک کو صیح طریقے سے پڑھنے میں اپنے بھائی کی مدد کیا کر دی تھی وہ قرآن مجید کی قاری تھی اور انہوں نے اپنی زندگی کے 35 سال قرآن پاک پڑھانے میں گزارے تھے اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ نیک کاموں میں بھی بھائی اور بہن معاون بن سکتے ہیں۔
آج ہم معمولی سی باتوں پر آپس میں الجھ جاتے ہیں ایک دوسرے سے بد اخلاقی سے پیش آنے لگ جاتے ہیں بد کلامی شروع ہو جاتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر میں بہن پر بھائی ہاتھ اٹھاتا ہے بہن ناراض ہو جاتی ہے اور آپسی تعلقات میں اتنا الجھ جاتے ہیں کہ بھائی اور بہن ایک دوسرے کے لیے نفرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں آج ضرورت ہے کے لیے نفرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں آج ضرورت ہے کہ اپنے آپ کو مثالی بھائی بنا کر دکھانے کی آج ضرورت ہے اپنے آپ کو مثالی بہن بنا کر پیش کرنے کی جب بھائی مصیبت میں ہو تو بہن ۔ بے چین ہو جائے اور جب بہن پر مصیبت آجائے تو بھائی بے چین ہو جائے جب محبت ہوگی تو ایک دوسرے کی فکر بھی ضرور ہوگی دلوں میں آج محبت نہیں ہے نتیجہ یہ ہے کہ بہن پریشان ہیں بھائی بے چین نہیں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بہن کی قربانی کا واقعہ
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ابتدائی جوانی میں سفر پر جانا چاہتے تھے تا کہ علم حاصل کر سکے مگر ان کے پاس خرچہ نہیں تھا کئی دن ایسے ہی گزر گئے تو بہن نے محسوس کیا کہ میرے بھائی سفر پر جانا چاہتا ہے مگر سفر کا خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے سفر موخر ہوتا جارہا ہے تو بہن نے اپنے زیورات بیچے اور اس سے جو پیسے ملے اس نے وہ اپنے بھائی کو ہدیہ کے طور پر پیش کر دیے اور کہا کہ آپ یہ پیسے لیں سفر کریں اور علم حاصل کریں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ آپ نے تو اپنا سارا زیور ہی بھیج دیا تو بہن نے جواب دیا کہ اللہ اس کے بدلے مجھے بہشت کی زیور عطا فرمائیں گے ایسے پاک جذبات آج ہمارے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
مثالی بھائی کیسے بنے
1 ۔ بہنوں کے ساتھ ادب واحترام کا رویہ رکھیں عزت سے نام لے۔
2۔ اچھی زبان کا استعمال کرے بازاری زبان استعمال نہ کرے۔
3- طاقت کے غلط استعمال سے گریز کرے۔
4۔ اجنبیوں کے سامنے اپنے بہنوں پر سختی نہ کرے۔
6۔ ان کے اچھائیوں اور خوبیوں سے حسد اور بغض نہ رکھیں۔
7 – سب بھائی بہنوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کرے یک طرف نہ سلوک کرے نہ فیصلہ کرے۔
8۔ ان کی خوشی غم تقریبات اور پریشانیوں میں شرکت ہونا چاہیے مشکلوں میں سہارا بن جائے اور اپنی معیت کا ثبوت دے کر ہمت کو بڑھاتے رہیں۔
مثالی بہن کیسے بنیں
1 بہن کے اندر اپنے بھائی کے لیے محبت اور ہمدردی ہونی چاہیے۔
2 بہن کے اندر وفاداری ہونی چاہیے، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ نے ایک عرصے سے صرف ایک وقت دو پھر کو کھانا کھاتے تھے شام کو کھانا تناول نہیں فرماتے تھے تعلیم التعلمین میں لکھا ہے کہ نا کارہ نے متعدد بار حضرت سے سنا کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ یعنی بہن تھی میں شام کو مطالعہ میں مصروف ہوتا تھا اور وہ لقمہ میرے منہ میں دیا کرتی تھی اس طرح مطالعے کا حرج نہ ہوتا تھا لیکن جب سے ان کا انتقال ہو گیا اب کوئی میری اتنی ناز برداری کرنے والا نہیں رہا شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ کا یہ جملہ بہن کی واہلانہ تعلق کو بتاتا ہے ایک دوسرے کے فکر اور ہمدردی و غمگساری کو بتاتا ہے، بہن واقعتا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے قدر کرنا چاہیے بھائیوں کو چاہیے کہ وہ بہن سے چھوٹی چھوٹی بات پر نہ لڑے بلکہ محبت سے پیش آئے اور بہن کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ محبت پیار سے اور ہمدردی کے ساتھ رہے جیسے حضرت شیما رضی اللہ عنہمھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت سے رہا کرتی تھی۔
3 اپنے بھائیوں کے ساتھ امانت دار بھی ہونا چاہیے۔
4 کبھی جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہیے۔
5 اپنے بھائیوں کو قابل بھروسہ بن کر دھو کہ نہ دیں۔ بہن کو ہمیشہ معاون رویہ رکھنا چاہیے ۔