’انڈیا‘ محاذ کے حامیوں کو ہریانہ میں راہل گاندھی کی انتخابی مہم سے دوری گراں گزر رہی تھی مگر پھر انہوں نے پولنگ سے تین دن قبل اچانک ’عزم فتح ‘ کے کارواں کا اعلان کردیا۔ اس ’وجئے سنکلپ یاترا‘ کا عوام نے جس جوش و خروش کے ساتھ استقبال کیا وہ بی جے پی تو دور کانگریس کی بھی توقعات سے پرے تھا ۔ اس میں شک نہیں کہ پارلیمانی انتخاب میں کانگریس نے صفر سے پانچ پر چھلانگ لگا کر بڑی کامیابی درج کرائی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے پانچ نشستوں پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے ۔ ووٹ کا تناسب دیکھیں تو بی جے پی کو کانگریس پر ایک فیصد سے کم کی فوقیت حاصل تھی لیکن اگر انڈیا محاذ میں شامل عام آدمی پارٹی کے ووٹ کانگریس میں ملا دئیے جائیں تو اسے بی جے پی پر ایک فیصد سے کم کی بڑھت ملی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کل ملا کر برابر سرابر کا معاملہ تھا لیکن راہل گاندھی کے کارواں نے نقشہ بدل دیا اور لوگ باگ اس بار بی جے پی کو جملہ 80 میں سے 40 تو دور 10 بھی ملنے پر خوش نصیب کہہ رہے ہیں ۔ یہ قیاس آرائی بالکل ہوائی بھی نہیں کیونکہ گزشتہ قومی انتخاب میں آر ایس ایس کے مرکزی دفتر والی ریاستِ مہاراشٹر کے اندر بی جے پی ایک ہندسے پر سمٹ چکی ہے۔
ہریانہ میں عوام کا جوش و خروش دیکھ کر کانگریس کے سیکریٹری جئے رام رمیش نےیہاں تک کہہ دیا کہ امسال 4؍ جون کے دن وزیر اعظم کو پہلا جھٹکا لگا تھا( جبکہ 400 پار کا خواب 240 پر آگیا) ۔ جئے رام رمیش پیشنگوئی ہے کہ 8؍ اکتوبر کو انہیں دوسرا جھٹکا لگے گاظاہرہے وہ ڈبل جھٹکا 220 کے بجائے 440 وولٹ کا ہوگا ۔ موصوف نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ (وزیر اعظم کو) تیسرا جھٹکا مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخاب میں لگے گاکیونکہ ہریانہ میں کانگریس اور جموں و کشمیر میں انڈیا اتحاد کو نتیجہ خیز مینڈیٹ ملنے کی پوری امید ہے۔ ان نتائج کے دوررس اثرات بتاتے ہوئے وہ بولے اس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی اقتدار سے وداعی کا آغاز یعنی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی ہریانہ اور جموں و کشمیر اسمبلی انتخاب میں بھی پولرائزیشن کا سہارا لے رہی ہے، لیکن عوام اس کوپھر سے وہی سبق سکھائیں گے جو اس سال قومی انتخاب میں سکھایا گیا تھا۔
کانگریس کے جنرل جس طرح مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کی بابت خاصے پر امیدہیں اسی طرح وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور این چندربابو نائیڈو سے بھی انہوں نے بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں اس لیے کہتے ہیں ’’آگے دیکھیے کہ پٹنہ اور امراوتی میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔‘‘ ان کی اس خود اعتمادی کے پسِ پشت ہریانہ میں راہل گاندھی کے دوروں اور جلسوں میں عوام کی بھیڑ اور یاترا کے اندر لوگوں کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ ہریانہ کے اندر کانگریس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بھوپندر سنگھ ہڈا اور کماری شیلجا کی آپسی مہا بھارت تھا لیکن راہل گاندھی ان دونوں کے درمیان صلح صفائی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اب وہ دونوں راہل اور پرینکا کے ساتھ شانہ بشانہ انتخابی سرگرمیوں پوری یکسوئی کے ساتھ جٹ گئے ہیں۔’ہریانہ وجئے سنکلپ یاترا‘ دراصل دو پہیوں پر چل رہی ہے۔ ان میں سے پہلا تو بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومتوں کے تئیں پائی جانے والی مایوسی اور ناراضی ہے لیکن دوسرا اہم تر پہلو راہُل گاندھی کا بیروزگاری اور مہنگائی جیسے عوامی دلچسپی کے مسائل کونہایت جارحانہ انداز میں اٹھانا ہے۔
سنکلپ یاترا کے پہلے ہی دن صبح میں انبالہ کے نارائن گڑھ ،کر یم نا نگر، ملانا، شاہ آباد میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ اس طرح شام کو جب وہ تھانیسر پہنچی تو وہاں بھی اس کا زبردست خیر مقدم کیا گیا اور انبالہ کی میں مانند،کروکشیتر کے اندر عظیم الشان انتخابی جلسہ کا انعقاد ہوا جہاں راہل گاندھی نے بی جے پی دھجیاں اڑا دیں ۔ زراعت کے سبب ہریانہ ایک خوشحال ریاست ہے مگر بیروزگاری کی آسیب نے اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور کچھ حصوں میں بیروزگار نوجوان نشے کی لت میں پڑ کر اپنا مستقبل روند رہے ہیں۔ مذکورہ بالا تناظر میں جب راہل گاندھی اڈانی کا ذکر چھیڑ کر انہیں وزیر اعظم نریندر مودی سے جوڑ دیتے ہیں تو یہ بیروزگار نوجوانوں کے من کی بات بن جاتی ہے۔ انبالہ کے اندر راہل گاندھی نے یہ کہہ کر عوام کا دل جیت لیا کہ ’’یہ مودی کی نہیں، بلکہ اڈانی کی حکومت ہے۔ ہریانہ میں اڈانی جیسے لوگوں کی حکومت نہیں چاہیے۔ اڈانی کھیت میں محنت نہیں کرتے، کوئی چھوٹا کاروبار نہیں کرتے۔ لیکن ہر صبح ان کے بینک اکاؤنٹ میں سنامی کی طرح پیسہ آ رہا ہے۔‘‘
عام لوگوں کے لیے اڈانی غیرہوسکتا ہے لیکن پھر اڈانی اور مودی کے رشتے کی بابت جب راہل کہتے ہیں کہ ’’وزیر اعظم نریندر مودی غریبوں کی جیب سے طوفان کی طرح پیسہ نکال کر سنامی کی طرح اڈانی کی تجوری میں ڈال رہے ہیں‘‘ تو لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص ان کا خیر خواہ ہے۔ عوام کا دل جیتنے کی خاطر راُہل یہ اعلان کردیتے ہیں کہ ’’ میرا ہدف ہے کہ جتنا پیسہ مودی نے اپنے متروں(دوستوں) کو دیا ہے، اتنا پیسہ میں ہندوستان کے غریبوں، استحصال زدہ و محروم طبقات کو دوں گا۔‘‘ اس کے برعکس مہنگائی اور بیروزگاری مار سہنے والے لوگوں سے جب وزیر اعظم نریندر مودی ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت کے تحت، ہریانہ زراعت اور صنعت دونوں کے لحاظ سے ملک کی اعلیٰ ریاستوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔اس کے بعد پروچن دیتے ہیں کہ جب صنعت کاری بڑھتی ہے تو غریبوں، کسانوں اور دلتوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے تو ہنسی آتی ہے۔
آگے چل کر جب وزیر اعظم کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی فتح مندی کا مژدہ سناتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ شخص کہیں شیخ چلی کے خواب تو نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد جب وہ خود میاں مٹھو بن کر فرماتے ہیں’’ میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں جو بھی ہوں، ہریانہ نے بھی اس میں بہت تعاون کیا ہے‘‘ تو رونا آتا ہے۔ ہریانہ میں بی جے پی نے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو ان کی نااہلی اور بدعنوانی کے سبب عہدے سے ہٹا دیا اب ان کو بغل میں بیٹھا کر جب وزیر اعظم کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس پارٹی کا ہائی کمان کرپشن میں ملوث ہو تو اس سے نیچے والوں کوکھلی چھوٹ مل جاتی ہےتو ان کی ڈھٹائی پر رشک آتا ہے۔ اس کے برخلاف عوام کے جمِ غفیر سے مخاطب کرکے جب راہل گاندھی ہریانہ میں موجود بے روزگاری، اگنی ویر منصوبہ اور مہنگائی کے مسائل پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں تو نوجوانوں اس میں اپنائیت نظر آتی ہے۔
راہل گاندھی نے امریکہ میں ان سے ملنے والے ہریانوی نوجوانوں کاحوالہ دے کر کہا کہ ریاست کا نوجوان 50-50 لاکھ روپے خرچ کر جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے بیرون ممالک جانے کے لیے مجبور ہے کیونکہ ہریانہ میں انھیں روزگار نہیں ملتا۔ وہ اگنی ویر منصوبےکو فوجی جوانوں کے پنشن کی چوری گردانتے ہیں تو یہ الزام حقیقت حال سے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کسانوں کے احتجاج کی یہ وجہ بتائی کہ ’’ کسان جانتے تھے زرعی قوانین کی آڑ میں مودی حکومت ان کی جیب سے مزید ایک طریقے سے پیسہ چھینے گی اس لیےوہ احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے مجبور ہوئے ۔‘‘ ہریانہ میں چونکہ جاٹ سماج بی جے پی کے خلاف ہے اس لیے بی جے پی دلت رائے دہندگان پر ڈورے ڈال رہی ہے اور آئین کی قسمیں کھاکر کہہ رہی ہے کہ کانگریس ریزرویشن ختم کردے گی ۔ راہل گاندھی نے ذات پر مبنی مردم شماری کا پرزور مطالبہ کرکے اس معاملے میں بی جے پی کوبالکل بے دست و پا کردیا ہے اور کوئی اس کے آنسووں پر یقین نہیں کرتا۔
راہل اعدادو شمار کی مدد سے اپنا موقف اس طرح رکھتے ہیں ملک میں او بی سی کی 50 فیصد، دلتوں کی 15 فیصد، اقلیتوں کی 15 فیصد اور قبائلیوں کی 8 فیصد آبادی ہے۔ لیکن ان طبقات کی ملک میں کہیں بھی شراکت داری نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کو چلانے والے 90؍ افسران میں سے صرف 3 کا تعلق او بی سی طبقہ سے ہے۔ راہل گاندھی اس صورتحال کے لیےمرکز کی مودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ ان کے مطابق ریاست میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان نظریات کی لڑائی ہے۔ ایک طرف انصاف ہے تو دوسری طرف ناانصافی۔ ایک طرف کسانوں اور مزدوروں کا مفاد تو دوسری طرف اڈانی اور امبانی جیسے لوگوں کا فائدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام اپنے فائدے اور نقصان کی بات پر توجہ دیں گے یا نان بایولوجیکل مخلوق کی وعظ و نصیحت سے پر یقین کریں گے؟ فی الحال بی جے پی کی بہت بڑی ضرورت وزیر اعظم کو مہاآتما ہونےکے خمار سے نکال کر عام آدمی بنانا ہے مگر یہ اتنا ہی بڑا چیلنج بھی ہے۔ انتخابی نتائج پر اس کا کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔