جمعہ نامہ: کشمکش کے دوران ، قرآن کا فرمان
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی‘‘۔ غزوۂ بدر کے تناظر میں نازل ہونے والی ان آیات کی تعلیمات کا اطلاق مخصوص صورتحال کے ساتھ عام حالات پر ہوتا ہے۔ ’چراغِ مصطفوی اور شرارِ بولہبی‘ کے درمیان کشمکش کا انداز بدلتا رہتا ہے۔ اس کی شدت میں کمی و بیشی بھی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ ہمیشہ جاری و ساری ر ہتی ہے۔ اس لیے اہل مومنین کو مقابلہ آرائی کی صورت میں سب سے پہلے صبر و استقامت یعنی بلا کم و کاست حق پر ڈٹ جانے کا حکم دیا گیا ا ہے ۔ دشمنانِ اسلام جب بہت زیادہ طاقتور ہوں تو یہ امر مشکل تو ہےلیکن اگر اہل ایمان اللہ تبارک و تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے ہوئے توکل کا دامن تھامے رہیں تو وہ دل شکستہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے حوصلے بلند رہتے ہیں ۔ آگے ثابت قدمی اور ذکر الٰہی کےساتھ جدوجہد کرنے والوں کو (غیر اسلامی عقائد و نظریات سے مکمل احتراز کرتے ہوئے) صرف اور صرف ’’ اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت ‘‘کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
کتاب الٰہی میں کامیابی کی مندرجہ بالا شاہِ کلید عطا کرنے کے بعد خبردار کیا گیا کہ:’’ اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی‘‘۔ عصرِ حاضر میں امت جب کسی بڑی آزمائش سے دوچار ہوتی ہے توہم آپس ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئےدشمن کے بجائے آپسی سر پھٹول میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ بدگمانی اور تلخ کلامی سے شروع ہونے والا سلسلہ بہتان طرازی اور دل آزادی تک پہنچ جاتا ہے اور پھر قرآن مجید کی یہ انجام ہم پر چسپاں ہوجاتا ہےکہ:’’ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘۔ اس معاملےمیں حماس اور ایران کی جانب سے بے مثال صبرو ضبط کا مظاہرہ استثناء ہے۔ اسماعیل ہنیہ اورپھر حسن نصرا للہ کی شہادت کے بعد شدید ترین آزمائش کے دور میں میڈیا کی ریشہ دوانیوں کے باوجود دونوں جانب سے کمال باہمی اعتمادو یکجہتی کی بدولت وہ حزن و یاس پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اور کیوں نہ ہوتے جبکہ رب کائنات کی بشارت ہے:’’صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔
غلبۂ دین کے حوالے سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے حالات یکسر بدل گئے تھے اس کے باوجود سیرت نبویﷺ میں یہ کشمکشِ حق و باطل کا سلسلہ مختلف النوع انداز میں جاری و ساری رہا۔ بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کی سعادت سے فیضیاب ہونے والوں کو مشیت ایزدی جب میدانِ بدر میں کیل کانٹوں سے لیس ایک ایسے لشکرِ جرار کے سامنے لے آئی جس کی بابت فرمانِ قرآنی ہے :’’(وہ ) اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے‘‘۔ ایسے میں اہل ایمان کومنع کیا گیا کہ :’’ (تم) اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو‘‘۔ مومنین کو کفارِ مکہ سے مختلف اور ممتاز شعار اختیار کرنے کی تلقین کرنے کے بعد انہیں ڈھارس بندھائی گئی کہ :’’ان کی روش(تو) یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں(مگر) جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے‘‘۔