Skip to content
کیاسنجے شندے سے اکشے شندے کا انکاونٹر ایکناتھ شندے نے کروایا؟
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ممبئی سے متصل تھانہ ضلع ہے ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی کرم بھومی وہیں کے شہرتھانے سے ہے۔ اس میں 2حلقۂ انتخاب ہیں اور ایک میں انہوں نے اپنے بیٹے ششی کانت شندے کو کامیاب کرکے ایوان پارلیمان میں بھیجا ہے۔ بدلا پور اسی حلقۂ انتخاب کا ایک شہر ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے عصمت دری سانحہ کی وجہ سے یہ بدلا پور میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ وہاں پر ایک اسکول میں دو ننھی منی بچیوں کے ساتھ جنسی دست درازی کا معاملہ سامنے آیا ۔ بچیوں کے والدین نے شکایت کے لیے پولیس تھانے سے رجوع کیا تو دو دنوں تک ٹال مٹول کیا گیا ۔ ایک بچی کی حاملہ ماں کو کئی گھنٹوں تک پولیس تھانے میں انتظار کروایا گیا کیونکہ وہ جس اسکول کے انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھہرا رہی تھی اس کے تار اوپر کے لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ آتش فشاں اس وقت پھٹ پڑاجب لوگ سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے ممبئی کی لائف لائن لوکل ٹرین کو تین گھنٹوں کے لیے بند کردیا ۔ اس غیر معمولی احتجاج کے بعد کمبھ کرن کی نیند سونے والے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے جاگے مگر ششی کانت ہنوز سوئے ہوئے ہیں ۔
بدلا پور معاملے میں عوام کا غم و غصہ کم کرنے کی خاطر اسکول کے چپراسی اکشے شندے کو گرفتار کرلیا گیا ۔ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اس لیے وہ اسے بھولنے لگے۔ درمیان میں شیواجی کا مجسمہ ٹوٹا تو حزب اختلاف اور عوام کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوگئی اور یہ معاملہ تقریباً رفع دفع ہوگیا ۔ ریاستی حکومت کے لیے یہ عافیت کی بات تھی مگر سنسکرت کا محاورہ ہے ’وناش کالے ویپریت بدھی‘ یعنی تباہی کے وقت انسان کا دماغ الٹ جاتا ہے اور ایسے میں وہ شخص دشمن کی ضرورت سے بے نیاز ہوکر خود اپنی بربادی کا سامان کرنے لگتا ہے ۔ ریاستی انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں برسرِ اقتدا رمحاذ کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں نہ جانے کس بیوقوف نے وزیر اعلیٰ یا وزیر داخلہ کو اکشے شندے کے انکاونٹر کا مشورہ دے دیا ۔ اس کام کے لیے ان لوگوں نے سنجے شندے نامی بدنامِ زمانہ پولیس افسر کا استعمال کیا ۔ یعنی یہ عجیب و غریب صورتحال بنی کہ اکشے شندے کو جس پولیس والے نے ہلاک کیا وہ سنجےبھی شندے ہے۔ جس حلقۂ انتخاب میں یہ انکاونٹر ہوا وہاں رکن پارلیمان ششی کانت بھی شندے اور اس کےوالدریاستی وزیر اعلیٰ ایکناتھ بھی شندے ہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک شندے کے اشارے پر دوسرے شندے کی نگرانی میں تیسرے شندے کے ذریعہ چوتھے شندے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور ان کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیرداخلہ نے سوچا ہوگا کہ اس انکاونٹر کے ذریعہ وہ یوگی کی طرح اپنی مقبولیت بڑھائیں گے لیکن ہائی کورٹ نے مداخلت کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور ایسے ایسے سوالات کردئیے کہ سرکاری وکیل کے ہوش اڑ گئے۔ جنسی ہراسانی کیس میں مقتول ملزم اکشے شندے کے والد نےبامبے ہائی کورٹ میں اپنے بیٹے کے انکاؤنٹر کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سماعت کے دوران عدالت نے مہاراشٹر پولیس کی کارروائی پر سوالات اٹھائے۔بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ اسے انکاؤنٹر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایک عام آدمی گولی نہیں چلا سکتا۔ ملزم کو گولی سے ہلاک کرنے کے بجائے پولیس اسے قابو میں کر سکتی تھی۔ اس لیے پہلی نظر میں ہی یہ واقعہ عجیب لگتا ہے۔ عدالت نے اس معاملے کسی آزاد ایجنسی سے کی تفتیش کرانے کی سفارش کی ۔
اس موقع پر ہائی کورٹ نے اسکولوں میں بچوں کی حفاظت کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے حوالے سے پیش رفت پر بھی اپنی مایوسی کا اظہار کیا کیونکہ اسے معلوم ہوا کمیٹی کے کسی بھی رکن کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہائی کورٹ کا حکم نہیں پہنچایا گیا۔جسٹس ڈیرے نے سوال کیا کہ ’ کیا آپ اس بارے میں سنجیدہ ہیں؟ آپ نے ہمیں اپنے عزم کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ رپورٹ ہفتے کے اندر جمع کرائی جائے لیکن یہ صرف کاغذ پر نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ کا عمل آپ کے الفاظ کے خلاف ہے‘۔ عدالت کی اس ناراضی کی وجہ یہ ہے کہ سرکار کو جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ تو اس نے نہیں کیا بلکہ کچھ اور ہی کردیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ اکشے شندے کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ ان کے بیٹے کی موت فرضی انکاؤنٹر میں ہوئی ہے۔ اس کے والد ایس آئی ٹی کےذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں ۔
اکشے شندے کا انکاونٹر اس قدر بھونڈے انداز میں کیا گیا کہ اس کو رفع دفع کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ سارا کام پولیس کی بند گاڑی کے اندر ہی کردیا گیا جبکہ وکاس دوبے کے معاملے میں کم از کم ملزم کو نیچے اتر کر بھاگنے کا موقع دیا گیا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ پولیس اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے اس سے آگے نکل گئی اور اس سے قبل کے وہ مڑ کسی اور سمت بھاگتا انکاونٹر کی گولی سیدھے پیشانی میں جالگی ۔ اس کے باوجود یوگی جی کے رام راج میں اترپردیش کی ایس آئی ٹی کو انکاونٹر میں بھی کوئی غلط بات نظر نہیں آئی اور اس نے کلین چٹ دے دی ۔ اکشے شندے کے والد پرامید ہوں گے کہ ایس آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہونے سے قبل ریاستی انتخابات کے بعد حکومت بدل جائے گی اور نئی سرکار کے تحت صوبائی حکومت کے تحت کام کرنے والی ایس آئی ٹی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ اکشے کے والد کا مرکزی ایجنسی سی بی آئی کو زحمت دینے کے بجائے ایس آئی ٹی پر اصرار ہے ۔
سی بی آئی ویسےتو مرکزی حکومت کے پنجرے کا طوطا ہے مگر اس نے بھی کولکاتہ کے معاملے میں اجتماعی عصمت دری کے شواہد نہیں ہونے کا اعتراف کرکے بی جے پی کے لیے مسائل کھڑے کردئیے ہیں ۔ اکشے شندے کے والد نے اپنے بیٹے کو ہندو طور طریقوں سے نذرِ آتش کرنے سے انکار کر کے نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ملزم کی آخری خواہش ہے لیکن اس کی یہ وجہ بھی بتائی گئی کہ اگر مستقبل میں جانچ کے لیے لاش کو نکالنا پڑے تو وہ زمین کے نیچے موجود رہے ۔ عدالت نے اکشے شندے کے پسماندگان کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ سہولت فراہم کرے ۔ تھانے ضلع کا انتظامیہ نے عدلیہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس کام کے لیے کسی سنسان مقام کا تعین کرے گا۔ اس فیصلے میں بھی اشارہ ملتا ہے کہ اکشے شندے کے والد حزب اختلاف سے پر امید ہیں کیونکہ اس نے حکومت پر اسکول انتظامیہ کو بچانے کی کوشش کر نے کا الزام لگایا ہے۔
اکشے شندے کو جب پولیس کی گاڑی میں لے جایا جارہا تھا تو اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں ۔ عدالت نے پوچھا کہ وہ کیسے کھل گئیں تو پولیس کا جواب تھا اس نے پانی مانگا تو ہتھکڑی کھولنی پڑی ۔ سوال یہ ہے کہ کوئی پولیس والا اپنے ہاتھ سے اسے پانی پلا دیتا تو کون سا آسمان پھٹ پڑتا ؟ جج صاحب نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی پستول چلائی ہے توانہوں نے سچ یا جھوٹ نفی میں جواب دے دیا ۔ اس پر جج صاحب بولے میں نے چلائی ہے اور بلا تربیت اسے کوئی بھی استعمال نہیں کرسکتا بلکہ اس کا لاک بھی نہیں کھول سکتا ۔ اس کے بعد جب سوال ہوا کہ شندے نے پستول کا لاک کیسے کھولا تو پولیس کا جواب تھا چھینا جھپٹی کے دوران کھل گیا ۔
یہ ناقابلِ یقین وارادت ہے کہ چار پولیس والوں کی موجوگی میں ایک ایسا ملزم جس کاکوئی مجرمانہ پس منظر نہیں ہے پستول چھین کر تین گولیاں چلا دیتا ہے ۔ ان میں سے ایک پولیس والے کے پیر میں لگتی ہے۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ ملزم نے تو پیشانی کے بجائے پیر میں گولی مارنے کا احتیاط ملحوظِ خاطر رکھامگر تربیت یافتہ پولیس اسے بھول کر سیدھے سر میں گولی مار دیتی ہے تاکہ بچنے کا کوئی امکان نہ رہے۔ ایسے میں جب جج صاحب نے پوچھا کہ تین میں سے ایک گولی تو پولیس والے کے ران میں لگی باقی دو کہاں گئیں تو اس کا کوئی جواب پولیس کے پاس نہیں تھا ۔ ہندی فلمیں اپنی حاقتوں کے لیے مشہور ہیں لیکن ایسا تو وہاں بھی نہیں ہوتا اسی لیے مقامی اخبارات میں اس پر دلچسپ تبصرےکیے۔مراٹھی سامنا نے لکھا کہ اگرشندے اور فڈنویس یہ دکھاوا کررہے ہیں کہ انہوں نے اکشے شندے کا انکاونٹر کرکے بدلاپور کی متاثرہ بچیوں کو فوری انصاف دیا ہے۔ تو پھر تھانے ضلع کی اکشتا مہاترےکو بھی فوری انصاف دیا جائے، جو مندر میں تین پجاریوں کی ہوس کا شکار بنی تھی۔
شیوسینا کے ترجمان روزنامہ سامنا میں ریاستی وزیر داخلہ (دیویندر فڈنویس ) کے ضلع میں پچھلے 6؍ ماہ کے دوران 200؍ سے زائد بہنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ذکر کرے کہا گیا کہ ، وہ بہنیں بھی ایسے ہی انصاف کی توقع رکھتی ہیں۔ سامنا اپنا اداریہ اس پر ختم کرتا ہے کہ یہ انکاؤنٹر ہمیشہ کی طرح جعلی ہے۔ وزیر داخلہ ماسٹر مائنڈ کو بچانا چاہتے ہیں۔پربھات نامی مراٹھی اخبار نے لکھا کہ یہ کلیدی ملزم کو مار کر کیس ختم کرنے کی کوشش ہے۔انڈین ایکسپریس کے ہندی اخبار ’جن ستہ‘ نے پولیس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ یا تو اپنی کوئی خامی چھپانا چاہتی ہے یا پھر اسے عدالتوں پر اعتماد نہیں اس لیے وہ خود فیصلے لینے اور سزا دینے پر یقین کرنے لگی ہے۔اخبار کے مطابق عدالت نے پولیس کی کہانی کو خارج کردیا۔ عوام کے لیے بھی اس کہانی پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ بہت جلد منعقد ہونے والے صوبائی انتخاب میں اس غیرقانونی سرکار کو مسترد کر نے کا انتظار کررہے ہیں ۔
Like this:
Like Loading...