شملہ کی مسجد کی تین منزلیں منہدم کرنے کا عدالتی حکم
شملہ،5اکتوبر ( آئی این ایس انڈیا )
سنیچر کو ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کے سنجولی میں مسجد کے معاملے میں میونسپل کارپوریشن (ایم سی) کمشنر نے مبینہ غیر قانونی طور پر بنائی گئی تین منزلوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے مسجد کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ اپنے خرچ پر غیر قانونی حصے کو گرا دے۔سنیچر کی سماعت میں عدالت نے سنجولی مسجد کے آس پاس رہنے والے ایک مقامی باشندوں کی اس معاملے میں فریق بننے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔قبل ازیں مقامی باشندوں کو فریق بنانے کی درخواست کے حوالے سے عدالت میں 1.25 گھنٹے تک بحث ہوئی۔
اس معاملے کی اگلی سماعت 21 دسمبر کو ہوگی۔ اس معاملے میں سنجولی کی مسجد کمیٹی نے 12 ستمبر کو میونسپل کارپوریشن کمشنر کو ایک درخواست دی تھی۔ اس میں اوپر کی 3 منزلیں گرانے کی تجویز دی گئی۔ اس انڈرٹیکنگ کی بنیاد پر ایم سی کمشنر بھوپیندر اتری نے حتمی حکم سے قبل عبوری احکامات جاری کئے۔ دراصل، آزادی سے پہلے سنجولی میں صرف دو منزلہ مسجد تھی۔ سال 2010 میں یہاں ایک مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔یہ معاملہ 2010 میں ہی میونسپل کارپوریشن کے علم میں آیا تھا۔
کارپوریشن نے غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے 2010 سے 2020 تک 35 بار نوٹس دیے۔ تب تک مسجد کمیٹی نے دو منزلہ کی بجائے 5 منزلہ مسجد بنا لی تھی۔ اس کیس کی آج 46ویں بار سماعت ہوئی۔ اب مسجد کی 3 منزلیں گرانے کا حکم آیا ہے۔مقامی لوگوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے مسجد کو گرانے کا مطالبہ اٹھایا تھا۔ وکیل کے مطابق 2011 میں میونسپل کارپوریشن نے مسجد کمیٹی کو پہلا نوٹس دیا تھا۔ 2018 تک پانچ منزلہ عمارت کیسے بنی؟ اس کا کوئی ریکارڈ میونسپل کارپوریشن کو کیوں نہیں دیا گیا؟ سنجولی میں وقف بورڈ کے پاس 156 بیگھہ اراضی ہے۔واضح ہوکہ سنجولی کے مقامی ہندو باشندے کیس میں پارٹی ہیں۔
جس میں آرتی گپتا کا نام نمایاں ہے۔وکیل نے مطالبہ کیا کہ ہمیں فریق نہ بنایا جائے تو بھی مسجد گرا دی جائے۔ کمشنر نے کہا کہ آپ بتائیں کہ پارٹی کیسے ہونگے؟ اس کے بعد عدالت نے مقامی باشندوں کو فریق بنانے سے انکار کر دیا۔ کمشنر نے کہا کہ معاملہ غیر قانونی تعمیرات کا ہے، جس میں وقف بورڈ پہلے سے ہی فریق ہے۔
اس لیے کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں۔وہیں وقف بورڈ کے وکیل نے کہا کہ جو بھی غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں، اس پر ایم سی کورٹ فیصلہ کرے گی۔ جو لوگ کیس میں آگے آرہے ہیں وہ بتائیں کہ وہ کس پارٹی کے ہیں۔ اس معاملے میں کسی نئی پارٹی کی ضرورت نہیں۔ یہ معاملہ پہلے ہی ایم سی اور وقف بورڈ کے درمیان چل رہا ہے۔ ایسے میں براہ راست الزامات لگانا درست نہیں ہے۔