Skip to content
صحابہ کرام ؓ اور آخرت کی فکر
ازقلم: مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی Oفَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی(النازعات ۴۰،۴۱)’’اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے کو خواہشات سے روکتا ہے ،اُس کا ٹھکانا جنت ہے‘‘ ، فرمان ِ نبوی ﷺ ہے کہ :جب مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت سے سوکھے پتے جھڑ تے ہیں (بیہقی فی شعب الایمان:۱؍۴۹۱) ،حضرات صحابہ کرام ؓ جب رسول اللہ ؐ سے آخرت کے حالات اور جنت وجہنم کے احوال سنتے تھے تو ان کا حال یہ ہوتا تھا کہ گویا جنت وجہنم ان کے سامنے ہیں،حضرت سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوالقاسم ؐ نے ارشاد فرمایا:قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر(اللہ تعالیٰ کے قہر وجلال اور قیامت وآخرت کے لرزہ خیز ہولناک احوال کے متعلق) تمہیں وہ سب معلوم ہوجائے جو مجھے معلوم ہے تو تمہارا ہنسنا بہت کم ہوجائے اور رونا بہت بڑھ جائے (صحیح بخاری:۶۴۸۶)،ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نےمزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:میں عالم غیب کی وہ چیزیں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ آوازیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ،آسمان چر چرا رہا ہے اور حق ہے کہ وہ چرچرائے ،قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے آسمان پر چار انگل جگہ بھی نہیں ہے جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور میں اپنی پیشانی ٹیک کر سجدے میں نہ پڑا ہو ،اگر تم وہ باتیں جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے اور بستروں پر بیویوں سے لطف اندوز بھی نہیں ہوسکتے ،اور اللہ سے فریاد رسی اور گریہ وزاری کرتے ہوئے جنگلوں وبیابانوں کی طرف نکل جاتے ،(ابن ماجہ:۴۱۷۹ )،حدیث کے راوی حضرت سیدنا ابوذر غفاری ؓ جب اس حدیث کو بیان فرماتے تھے تو ان پر اس قدر خوف خدا اور فکر آخرت کا غلبہ ہوتا تھا کہ بے ساختہ بول پڑتے کہ :کاش میں ایک درخت ہوتا جس کو جڑ سے کاٹ دیا جاتا اور پھر آخرت میں مجھ سے حساب وکتاب نہ ہوتا،یقینا جن کے دل میں خوف الٰہی ہوگا ،جن کے قلب خشیت الٰہی سے کانپتے اور لرزتے ہیں ، خدا کے حضور حاضری کے تصور سے انکی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ا ور آخرت کے تصور سے ان کے دل دھڑکنے لگتے ہیں، چہرہ کا رنگ فق ہوجاتا ہے اور مارے خوف کے ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ ان سے کوئی عمل ایسا سرزد نہ ہوجائے جو آخرت میں خدا کے حضور ندامت وشرمندگی کا باعث اور عذاب نار کا سبب بن جائے ، یقینایہی لوگ محبت الٰہی کو پانے والے اور آخرت کی نعمتوں کو حاصل کرنے والے ہوں گے ۔
خوف الٰہی رکھنے اور آخرت کی فکر کرنے والوں کی مثال دے کر آپؐ نے لوگوں کو سمجھاتے ہوئے بتایا کہ :جو شخص ڈرتا ہے وہ شروع رات میں چل دیتا ہے اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے ،یاد رکھو اللہ کا سودا سستا اور کم قیمتی نہیں بلکہ بہت مہنگا اور قیمتی ہے ،یاد رکھو اللہ کا وہ سودا جنت ہے(ترمذی :۲۴۵۲)عرب کا عام دستور تھا کہ مسافروں کے قافلے رات کے آخری حصہ میں چلتے تھے ،چونکہ عموماً رہزنوں اور ڈاکوؤں کے حملے سحر ہی میں ہوتے تھے تو یہ ان کے حملوں کا شکار ہوجاتے تھے ،مگر جن مسافروں کو رہزنوں کے حملوں کا خوف ہوتا تھا تو وہ اس سے بچنے کیلئے رات کے ابتدائی حصے میں سفر کرتے تھے اور اس تدبیر سے وہ رہزنوں کے حملے سے محفوظ رہ کر بحفاظت منزل پر پہنچ جاتے تھے،اس مثال کے ذریعہ آپ ؐ نے سمجھایا کہ جس طرح رہزنوں کے حملوں سے ڈرنے والے مسافر اپنی نیند کو قربان کرکے رات کے شروع حصے میں چل دیتے ہیں اسی طرح آخرت کی فکر رکھنے والے اور جہنم کا ڈر رکھنے والے اپنی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچنے والے بھی سفر دنیا میں اپنی راحتوں ،لذ توں اور خواہشوں کو قربان کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں،پھر آپ ؐنے فرمایا کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ لینا چاہتا ہے وہ کوئی کم قیمت اور معمولی چیز نہیں ہے بلکہ وہ تو نہایت گراں قدر اور بے حد قیمتی چیز ہے اور وہ ہے جنت۔
حضرات صحابہ کرام ؓ کو رسول اللہؐ کی صحبت بابرکت کے نتیجہ میں وہ کیفیات عطا ہوئی تھیں جس کا کوئی دوسرا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے ،وہ امت محمدیہ میں سب سے زیادہ اپنے دلوں میں خوف الٰہی اور آخرت کا فکر رکھنے والے تھے ،خوف الٰہی اور فکر آخرت سے ان کے چہروں پر خوف کے آثار نمایاں طور پر دکھائی دیتے تھے،ان کی آنکھوں سے آنسو ؤں کی جھڑی لگی رہتی تھی ،یہ دن میں گھوڑوں کی پیٹوں پر فضل الٰہی تلاش کرتے ہوئے نظر آتے تھے تو رات کی تنہائیوں میں مصلوں کو سجدوں سے سجائے ہوئے دکھائی دیتے تھے،ان کے خوف الٰہی اور فکر آخرت کے واقعات تاریخ وسیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیںان میں سے بطور مثال چند کو ذکر کیا جارہا ہے ۔
(۱) حضرت سیدنا معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق ؓ پر ہر وقت خوف وخشیت کا غلبہ رہتا تھا، ایک مرتبہ کسی پرندہ کو درخت پر بیٹھا دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اُسے مخاطب کرکے فرمایا:اے پرندہ !تجھے خوشخبری ہو (تم کس قدر مزے میں ہو) اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں بھی تمہاری طرح ہوتا ،تم درختوں پر بیٹھے ہو ،پھل کھاتے ہو،پھر اُڑجاتے ہو اور قیامت کے دن نہ تمہارا حساب ہوگا اور نہ تم پر کوئی عذاب ہوگا(کنز العمال:۳۵۶۹۶)، حضرت سیدنا ابوعمرانؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: کاش! میں ایک مومن صالح کے پہلو کا کوئی بال ہوتا(کتاب الزہد: ص ۱۳۸)(۲) خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے خوف خدا اور فکر آخرت کا بھی یہی حال تھا ،جس وقت آپ ؓ پر نیزہ سے حملہ ہوا اور آپ زخمی ہوگئے تو ابن عباسؓ ان کے پاس گئے اور خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا :آپ کو جنت کی بشارت ہو ،آپ رسول اللہ ؐ کی صحبت میں رہے اور بڑے لمبے عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے اور پھر مسلمانوں کے امیر بنائے گئے تو آپ نے مسلمانوں کو خوب قوت پہنچائی اور امانت صحیح طور سے اداکی ،یہ سن کر حضر ت عمر ؓ نے فرمایا ’’تم نے مجھے جنت کی بشارت دی ہے تو اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،اگر ساری دنیااور جو کچھ اس میں ہے وہ سب مجھے مل جائے تو اِس وقت میرے سامنے آخرت کا جو دہشت ناک منظر ہے اس سے بچنے کیلئے میں وہ سب کچھ یہ جاننے سے پہلے ہی فدیہ میں دے دوں کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے(طبرانی:)(۳)خلیفہ ٔ سوم حضرت سیدنا عثمان بن عفانؓ خوف الٰہی وفکر آخرت اور عذابات برزخ کو یاد کرکے بہت رویا کرتے تھے ،آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت ہانی ؒ فرماتے ہیں حضرت عثمان ؓ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی ،ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کو جب سیدنا عثمان ؓ کے قتل کی خبر ملی تو فرمایا عثمان ؓ کو قتل کر دیا گیا حالانکہ وہ سب سے صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والے تھے،(۴)حضرت ضرار اسدیؒ جو خلیفہ ٔ چہارم حضرت سیدنا علی مرتضی ؓ کے اصحاب میں سے تھے ان کے اوصاف وکمالات اور خوف وخشیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ: علم ان کے اطراف وجوانب سے بہتا تھا اور حکمت ان کے گردسے ٹپکتی تھی ،دنیا اور اس کی تازگی سے وہ متوحش ہوتے تھے اور رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے انس حاصل کرتے تھے ،(یاد خدا اور فکر آخرت سے)روتے بہت تھے اور فکر آخر ت میں زیادہ رہتے تھے،(۵)حضرت سیدنا ابوہریرہؓ کے خوف وخشیت کی حالت بھی کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ آپ بیمار ہوئے اور رو رہے ہیں ،کسی نے عرض کیا اے ابوہریرہؓ! آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا غور سے سنو میں تمہاری اس دنیا پر تو نہیں رو رہا ہوں بلکہ اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ سفر بہت دور کا ہے اور میرا توشہ کم ہے اور میں اس گھاٹی پر چڑھ گیا ہوں جس کے بعد جنت اور دوزخ دونوں کو راستہ جاتا ہے اور مجھے معلوم نہیں ہے کہ اِن دونوں میں سے کس کے راستے پر مجھے چلایا جائے گا ،(۶) حضرت سیدنا شداد بن اوس انصاریؓ کے دل میں خوف خدا اور آخرت میں جواب دہی کا اس قدر شدت کے ساتھ احساس غالب تھا کہ جب بستر پر سونے کیلئے جاتے تو کروٹیں بدلتے رہتے اور ان کو نیند نہ آتی اور یوں فرماتے اے اللہ ! جہنم نے میری نیند اُڑادی پھر کھڑے ہوکر نماز شروع کر دیتے اور صبح تک اسی میں مشغول رہتے(ابونعیم)(۷)ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے انتقال کے وقت ان کی خد مت میں حضرت ابن عباسؓ تشریف لائے اور ام المؤمنین کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اے رسول اللہ ؐ کی زوجہ محترمہ !آپ کو خوشخبری ہو ،رسول اللہ ؐ نے آپ کے علاوہ کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی اور آپ کی (تہمت زناسے) برأت آسمان سے اُتری تھی ،اتنے میں سامنے سے حضر ت ابن زبیر ؓ حاضر خدمت ہوئے تو ام المؤمنین ؓ نے ان سے فرمایا ابن عباس میری تعریف کر رہے ہیں اور مجھے یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ آج میں کسی سے اپنی تعریف سنو ،میری تمنّا تو یہ ہے کہ کاش میں بُھو لی بِسری ہوجاتی۔
خوف الٰہی اور فکر آخرت ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ ؓ وتابعین ؒ ہر نیک عمل کو بڑی رغبت اور اہمیت سے انجام دیا کرتے تھے اور گناہوں سے اس طرح دور بھاگتے تھے جس طرح آدمی درندہ سے دور بھاگتا ہے اور انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر زمانے میں اولیاء اللہ ، بزرگان دین اور نیک و پرہیزگار لوگ قدم قدم پر اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کی فکر کرتے تھے، ،وہ معمولی گناہ کو بھی کسی بلند وبالا پہاڑ کے مانند تصور کرتے تھے ، یہ لوگ ہر وقت اپنے دل میں آخرت کا خوف اور وہاں جواب دہی کو ذہن میں رکھتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ جب کبھی ان سے کوئی معمولی غلطی سرزد ہوجاتی تو اس قدر تڑپا کرتے تھے جیسے کوئی شخص بچھو کے کاٹنے سے بے چین وبے قرار ہوتا ہے ، چنانچہ ادھر خطا ہوئی اور ادھر دوسرے ہی لمحے دربار الٰہی میں حاضر ہوکر اپنے قصور کا اعتراف ، شرمندگی کا اظہار اور آہ وزاری کرتے ہوئے کثرت سے توبہ واستغفار کرتے تھے اور پھر صدقہ وخیرات کے ذریعہ اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتے تھے۔
مگر اس وقت صورت حال بالکل بدل چکی ہے ، اکثر لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ،مادیت اور دنیا کی سہولت نے انہیں گھیر کر رکھ دیا ہے ، گناہوں نے انہیں جری بنادیا ہے ،ان کے دل دنیا کی محبت میں گم ہیں جس کی وجہ سے آخرت ان سے اوجھل ہو چکی ہے ،مزید یہ کہ دینی تعلیم سے دوری،عبادتوں سے لاپرواہی ،دنیا داروں کی صحبت، علماء اور اہل اللہ کی تربیت سے غفلت نے ان کے دلوں کو سخت کردیا ،یہ معصیت کے صحرا میں چکر لگا رہے ہیں اور معصیت کی نحوست کا اثر ہے کہ حالات کا ہتھوڑا دن بدن ان کے سروں کو کچلتا جارہا ہے مگر اس کے باوجود احساسات سے محروم اور دنیا کی رنگینی میں مشغول یہ لوگ مزید مصائب کو اپنی طرف دعوت دے رہے ہیں ،گناہوں کی کثرت اور دنیا کی آرزوں نے ان کے ذہنوں کو مفلوج کردیا ہے ،اگر یہ حالات سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو پر سکون بنانا چاہتے ہیں اور دنیا وآخرت میں کامیابی کا تمغہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنے اندر خوف الٰہی اور فکر آخرت کو پیدا کرلیں اور اپنی بقیہ زندگی آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گزاریںیقینا یہی وہ نسخہ کیمیاء ہے جسے اپنا کر اللہ کے بے شمار بندوں نے گناہوں سے حفاطت حاصل کی تھی اور سچے بندے بن کر بندگی کی زندگی گزاری تھی ، کسی اللہ والے کا کہنا ہے کہ خوف الٰہی اور فکر آخرت دل میں پیدا کرنے سے آدمی دنیا کی بے چینی اور آخرت کی ابدی گرفتاری سے ایسا محفوظ رہتا ہے جس طرح وہ مسافر حادثات سے محفوظ رہتا ہے جو دوران سفر معمولی چیزوں سے بچ کر چلتا ہے،کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
فکر دنیا کرکے دیکھا فکر عقبی کرکے دیکھ
چھوڑ کر اب ذکر سارے ذکر اللہ کرکے دیکھ
کون کس کے کام آیا ،کون کس کا ہے ہوا
سب کو اپنا کرکے دیکھا ،رب کو اپنا کرکے دیکھ
خواہشوں کے پیچھے پڑ کر اب ذرا کچھ سوچ لے
نفس کو راضی کرکے دیکھا ،رب کو راضی کرکے دیکھ
Like this:
Like Loading...