Skip to content
ظریفانہ :
سپنوں کا نہیں بکروں کا سوداگر
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
بکرا منڈی للن قریشی نے کلن خان سے کہا بھیا دیکھو مجھے اپنے پورے خاندان کے لیے بکرے خریدنے ہیں اور میں گرمی میں بھٹکنا نہیں چاہتا ۔
کلن بولا ارے صاحب بھٹکیں آپ کے دشمن ۔ آپ تو سارے بکرے ہمارے ہی باڑے سے خرید کر جائیں گے لیکن یہ تو بتائیں کہ کتنے چاہئیں ؟
للن نے کہا مجھے اپنے اور بھائیوں کے لیے دس بکرے خریدنے ہیں ۔
کلن خوش ہوگیا ، سوچا بڑی اسامی ہاتھ لگی ہے۔ وہ بولا صاحب نو خرید لیجیے ایک میری طرف سے تحفہ ۔ آپ اپنی پسند کا مال الگ توکریں۔
الگ کیا کرنا ؟ سب ہی ایک جیسے تنو مند ہیں ۔ٹھیک دام بتاو کہ سودہ ہوجائے اور ہم دونوں فارغ ہوجائیں ۔
کلن بولا واحد کلا م ’400 سو ہزار‘ سرکار لے جائیے یہ بھاو تو صرف آپ جیسے بڑے گاہک کے لیے ہے؟
صرف میرے لیے کیوں ؟ وہ جو مجھ سے پہلے جو بکرے دیکھ رہا تو اس کو کیا بتایا تھا۔
اس کی چھوڑئیے سرکار۔ مجھے بتہ تھا صرف بھاو نکالنے آیا تھا اس لیے400 سو پار کردئیے تھے میں نے۔
اچھا تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ وہ یونہی بھاو نکال رہا ہے ۔
ارے بھائی خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر ۔ ہم تو شکل دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ خریدار ہے یا بس ٹائم پاس کررہا ہے۔
اچھا خیر اس نے کیا دام لگایا ؟
240 ہزار سرکار۔ بس پھر کیا تھا میں نے چل بھاگ ادھر سے۔قربانی کے بکروں کی قسم رسوا کرکے بھگا دیا ۔
اچھا کیا ۔ للن بولا لیکن چار لاکھ تو بہت ہوتے ہیں ۔ تم کوئی ایسی قیمت بتاو کہ سودہ ہوجائے ۔ تمہارے بکرے مجھے اچھے لگ رہے ہیں ۔
ارے صاحب اچھے کیا جگر گوشے ہیں ۔ میں نے کتنے جتن سے انہیں پال پوس کر بڑا کیا دل جانتا ہے ۔ مجبوری نہ ہوتی تو کبھی نہیں بیچتا ۔
اچھا ! نہیں بیچتے تو کیا ان کا اچار ڈالتے ۔ بکروں کی پرورش تو اسی مقصد کے لیے جاتی ہے ۔ تم کیسی فلسفیانہ باتیں کرتے ہو۔
جی ہاں صاحب آپ کی منطق درست ہے لیکن آپ ایک بار مویشی پال کر دیکھیے ۔ دن رات کا ساتھ ہونے کے سبب دل لگ جاتا ہے۔
یار میں تو برسوں سے بکرے خرید رہا ہوں مگر اس طرح کی باتیں کبھی نہیں سنیں ۔
سیٹھ لوگوں کے پاس ہم غریبوں کا درد سننے کے لیے وقت کہاں ہوتا ہے؟آپ لوگ تو ’اپنے من کی قیمت ‘ پر بکرے کھول کر لے جاتے ہیں۔
للن کا دل پسیج گیا وہ بولا نہیں تم پہلے اپنی بات کہو پھر ہم بکروں کا سودہ کریں گے ۔
کلن بولا ہم کیا بولیں صاحب یہی سمجھ لو کہ اپنے بیٹے کی قربانی دیتے وقت حضرت ابراہیم ؑ کے دل کی جو کیفیت تھی وہی ہماری ہوتی ہے ۔
یار تم جتنی اونچی بات کرتے ہو اتنی ہی اونچی قیمت بھی مانگتے ہو ۔ کچھ ٹھیک ٹھاک بولو تو بات آگے بڑھے ۔
دیکھیے صاحب مجھے جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا ۔ اب آپ کی باری ہے ۔
للن نے سوچا کم بھی بولوں تو کتنا کم بولوں ۔ اس نے کہا میرا خیال ہے پہلے والا گاہک صحیح قیمت لگا رہا تھا 240 ہزار ٹھیک ہے۔
ارے صاحب یہی بات ہے تو مفت میں لے جائیے اور قربانی کیجیے ۔ بولیے کون سے کھولوں ؟
ایک تو اتنا اونچا دام اور پھر ایسی خطرناک دھمکی یہ بتاو کہ تمہارا دماغ تو درست ہے ؟
دیکھیے صاحب ہر کوئی غریب آدمی کا دماغ درست کرنا چاہتا ہے ۔ یہی بات کوئی پٹرول پمپ پر جاکر نہیں کہتا ؟
پٹرول پمپ سے تمہارے ان بکروں کا کیا لینا دینا ؟ ان کو پیاس لگے تو کیا تم پٹرول پلاتے ہو؟
دیکھو صاحب جی تو چاہتا ہے کہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے پٹرول پی کر جل مروں لیکن کیا کروں؟ اللہ تعالیٰ نے خودکشی کو حرام جو کردیا ۔
ایک طرف تو بڑے اللہ والے بن رہے ہو اور دوسری جانب قربانی کرنے والوں کو بے تحاشا لوٹتے ہو، شرم آنی چاہیے؟
ہر کوئی عار دلاتا ہے، شرم و حیا کو غربت نیلام کردیتی ہے۔ آپ نے پوچھا تھا نہ ان بکروں پٹرول سے کیا کام ؟ ان کا تو ٹول سے بھی واسطہ پڑتا ہے ؟
للن نے پوچھا بکرے ، پٹرول اور ٹول ٹیکس بات سمجھ میں نہیں آئی؟
اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ یہ بکرے اڑ کر تھوڑی نا منڈی میں آتےہیں؟
تو میں نے کب کہا کہ اڑ کر آتے ہیں؟
ارے صاحب ان کو لانے والی لاریاں ایندھن سے چلتی ہیں اور ٹرک ڈرائیور کو راستے میں کئی باربڑھا ہواٹول ٹیکس بھرنا پڑتا ہے۔
لیکن وہ تو اپنے مالک سے وصول کرلیتا ہے۔ تمہارا اس سے کیا لینا دینا ؟
صاحب اس کا مالک ہم سے کرایہ بڑھا کر وصول کرلیتا ہے،کیونکہ بالآخر غریب لوگ ہی مہنگائی کی مار کا شکار ہوتے ہیں ۔امیر توعیش کرتے ہیں۔
للن بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تو ایک وقت کا خرچ ہے ۔
جی نہیں مہنگائی تو روزمرہ کا مسئلہ ہے۔ مویشیوں کا چارہ اور ہمارااناج دونوں دن بہ دن مہنگا ہوتا جارہا ہے اگلے سال کیا حال ہوگا کوئی نہیں جانتا ؟
کیوں اگلے سال کون سی قیامت آجائے گی ؟ وہی سرکار وہی چہرے ؟؟ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔
جی نہیں سرکار الیکشن کی وجہ سے یہ رکے ہوئے تھےاب پانچ سالوں کے لیے لوٹ مار کی چھوٹ مل گئی ہے۔ اب خوب خون نچوڑا جائے گا۔
للن نے پوچھا اچھا یہ بتاو کہ بکریاں چراتے چراتے تم نے یہ بڑی بڑی باتیں کہاں سے سیکھ لیں؟
دیکھیے صاحب انٹر نیٹ نے تو ویسے ہی پڑھے لکھے اور جاہل کا فرق مٹا دیا ہے ۔
کیا بکتے ہو ۔ انٹر نیٹ اس فرق کو کیسے مٹا سکتا ہے؟
ارے صاحب واٹس ایپ یونیورسٹی میں مفت داخلہ لے کر کم سے کم پڑھا لکھا عالم فاضل ہوجاتا ہے اور بڑے سے بڑا عالم جاہل بن جاتاہے۔
للن نے سوال کیا یار تمہاری پہلی بات تو ٹھیک لگتی ہے مگر دوسری والی سمجھ میں نہیں آئی۔
آپ تو ہمارے بکروں سے بھی بھولے ہیں ۔کیا آپ نے پڑھے لکھے مودی بھگتوں کو جہالت کی باتیں کرتے نہیں سنا ؟ یہ واٹس ایپ کا کمال ہے۔
بھائی سچ بتاوں میں کسی بکروں کے بیوپاری یا چرواہے سے ایسی باتوں کی توقع نہیں کررہا تھا۔
کلن نے کہا اس لیے نہیں کررہے تھے کہ وہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے لیکن جس کے ساتھ آپ بات کررہے ہیں اس کا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔
میں نہیں سمجھا ؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
صاحب میرے والد منشی تھے اور دادا بکریاں چراتے تھے ۔
اور تم والد کے کے بجائے دادا کے پیشے کی جانب لوٹ گئے۔ نئی نسل کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ پڑھنا لکھنا اور محنت کرنا نہیں چاہتی۔
دیکھیے صاحب محنت تو میں شاید آپ سے زیادہ کرتا ہوں ۔ اس لیے آپ یہ الزام نہیں لگا سکتے ۔
ارے ہاں وہ تو مجبوری ہے اگر پڑھنے لکھنے کی محنت کرتے تو آج بکریاں نہیں بیچ رہے ہوتے؟
دیکھیے صاحب میں اپنے والد سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوں ۔ میں نے پی ایچ ڈی کیا مگرملازمت نہیں ملی۔
کیا پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملی؟
کلن نے سوال کیا جناب آپ کو ملک میں بیروزگاری کی شرح کا علم ہے؟
ہاں میں راہل کی تقریروں میں سنتا رہتا ہوں مگر تم نے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد پروفیسر نہ سہی توکم ازکم ٹیچرتو بن ہی سکتے تھے؟
وہاں پہلے مفت میں پڑھاو اور جب اسکول کو سرکاری ایڈ ملنے لگے تو منتظمہ کو تنخواہ میں سے رشوت دو ۔ یہ میرے ضمیر کو گوارہ نہیں تھا۔
لیکن پھر اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد یہ بکریاں چرانے کا خیال تمہارے ذہن میں کیسے آگیا؟
ایسا ہے کہ والد صاحب کےریٹائر منٹ اور داداجان کے انتقال کے بعد ان کی بھیڑ بکریاں سنبھالنے کی ذمہ داری مجھ پر آئی تو ان سے دل لگ گیا۔
یار اب بھی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک پی ایچ ڈی ایسا حقیر کام کیسے کرسکتا ہے؟
کلن بولا دیکھیے صاحب کوئی کام حقیر نہیں ہوتا ۔ پردھان جی کی نظر میں تو پکوڑے تلنا بھی باعزت روزگار ہے۔
اچھا تو وہ خود اس پیشے کو کیوں نہیں اپنا لیتے؟ وہ تو سپونوں کے سوداگر ہیں ۔ وہ خواب بیچتے ہیں تم لوگ ان کے چکر میں پڑجاتے ہو؟
دیکھیے صاحب ملک کے عوام آنکھیں موند کے ان کے خواب خریدتے ہیں لیکن ہمارے گوشت پوست کے بکروں کا مول بھاو کرتے ہیں۔
اوہو میں تو بھول ہی گیا تھا کہ مجھے بکرے خرید کر فوراً لوٹنا تھا خیر اب بولو کہ دس بکرے کم سے کم کتنے میں دو گے ؟
دیکھیے صاحب تین لاکھ سے کم میں نہیں دوں گا لینا ہے لیجیے ورنہ جانے دیجیے۔
للن بولا اچھا ایسا کرو کہ جتنی این ڈی اے کی نشستیں ہیں 296؍ اتنے ہزار لے کر چھوڑ دو۔
کلن بولا صاحب امیت شاہ کی خریدو فروخت سے یہ تعداد کبھی بھی 300پار ہوسکتی ہے۔
جی ہاں مگر الٹا بھی ہوسکتا ہے۔ تصور کرو کہ اگر سابق کانگریسی اپنی مادرِ تنظیم میں لوٹ جائیں تو کیا ہوگا؟
ارے تب تو غضب ہوجائے گا ۔ میں آپ کو دو بکرے مفت میں دے دوں گا لیکن وہ نہیں جائیں گے ۔
کیوں تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟
ان کی بدعنوانی کو دھونے کے لیےبی جے پی جیسی واشنگ مشین کسی کے پاس نہیں ہے۔بدعنوانی کے لیے زعفرانی تحفظ سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا ۔
جی ہاں مگر اچھی وزارت کا لالچ ان کو واپس لاسکتا ہے اور ابن الوقت تو ابن الوقت ہی ہوتا ہے خیر تم یہ تین لاکھ پکڑو اور میرے بکرے الگ کرو۔
کلن بولا میں آپ کے لیے بہترین بکرے نکالتا ہوں صاحب آپ سے بات چیت میں مزہ آگیا ۔
Like this:
Like Loading...