وکیلوں کیخلاف ججوں کا توہین آمیر رویہ، چیف جسٹس آف انڈیا کے نام خط
نئی دہلی، 10اکتوبر (ایجنسیز)
ملک کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو کچھ وکلاء نے خط لکھ کر ججوں کے خلاف شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے ججوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جو سماعت کے دوران وکلاء کی سرزنش کریں یا ایسی باتیں کہیں جس سے وکلاء کی توہین ہو۔ کئی دیگر ایسوسی ایشنز بشمول مدراس ہائی کورٹ ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن، تمل ناڈو بار ایسوسی ایشن اور پڈوچیری بار ایسوسی ایشن نے ججوں کے اس رویہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے چیف جسٹس چندرچوڑ کو خط لکھے ہیں۔
وکلاء کا مطالبہ ہے کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ججز،وکلاء کی روز اس طرح توہین نہیں کریں گے اور قابل احترام زبان میں بات کریں گے۔ خط میں لکھا گیا کہ بعض جج وکلاء کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ وکلاء پر شور مچاتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہوئے آداب نہیں برتتے۔ یہ معاملہ یکم اکتوبر کو مدراس ہائی کورٹ کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہونے کے بعد زیر بحث آیا تھا۔ہائی کورٹ کے جسٹس آر. سبرامنیم اور جسٹس ایل۔
وکٹوریہ گوری کی بنچ ایک کیس کی سماعت کر رہی تھی۔ ویڈیو کلپ میں جسٹس سبرامنیم سینئر ایڈوکیٹ پی ولسن کی سرزنش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ویڈیو میں جسٹس سبرامنیم کو ایڈوکیٹ ولسن پر چالیں چلانے اور کیس سے ہٹانے کا الزام لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس دوران ایڈووکیٹ ولسن نے کئی بار معافی مانگنے کی کوشش کی لیکن جج نے ان کی بات سننے سے صاف انکار کر دیا۔ سماعت کے دوران ایڈوکیٹ ولسن نے بنچ کو مشورہ دیا تھا کہ جسٹس گوری کو اس کیس سے خود کو الگ کر لینا چاہیے۔
بنچ تمل ناڈو پبلک سروس کمیشن میں بھرتی کے سلسلے میں 2018 اور 2024 میں دائر کئی اپیلوں کی سماعت کر رہی تھی۔ تمل ناڈو پبلک سروس کمیشن کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل ولسن نے سماعت میں کہا کہ جسٹس وکٹوریہ گوری کو سماعت سے ہٹا دیا جائے کیونکہ انہوں نے رٹ پٹیشن قبول کر لی ہے اور رہنما خطوط بھی جاری کر دیے ہیں۔ایڈوکیٹ ولسن کی سرزنش کرتے ہوئے جسٹس سبرامنیم نے کہا کہ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان ہے اور وکیل چاہتے ہیں کہ جسٹس گوری کو کیس سے ہٹا دیا جائے کیونکہ انہوں نے رٹ پٹیشن پر عبوری حکم دیا تھا جبکہ درخواستیں ابھی زیر التوا ہیں۔
فاضل جج نے کہا کہ یہ عدالت کی توہین ہے اور وہ کیس نہیں سنیں گے اور وہ رجسٹری کو کیس چیف جسٹس کو منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ویڈیو سامنے آنے کے بعد کئی بار ایسوسی ایشن کے وکلاء سینئر ایڈوکیٹ ولسن کی حمایت میں آئے اور انہوں نے مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی۔
سری رام اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو خط لکھا۔ خط میں لکھا گیا کہ وکلاء اور ججوں کو انصاف کی انتظامیہ میں یکساں حقوق اور حصہ داری حاصل ہے لیکن بعض ججوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وکلاء ان کے ماتحت ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سماعت کے دوران وکلا پر چیختے ہیں، نامناسب باتیں کرتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بات کرتے وقت آداب کا خیال نہیں رکھتے۔