Skip to content
عید الأضحٰی ہمیں کیا سکھاتی ہے؟
(پیغام عید الاضحٰی)
تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس:سلفیہ مسلم انسٹچیوٹ پرے پورہ
رابطہ :6005465614
آج بھی ہوجو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
عید الاضحی کا مبارک دن ہم پر طلوع ہوچکا ہے ،اسی دن کو یوم النحر اور حج اکبر کا دن کہا گیا ہے ،تمام ایام میں افضل ترین دن یہی مبارک دن ہے۔اس مبارک دن اہل اسلام قربانی کی مقدس سنت ادا کرتے ہیں ،قربانی کو عربی میں الاضحیہ کہا جاتا ہے اسی وجہ سے اس عید کا نام عید الاضحی قرار دیا گیا ہے۔عید الاضحی اپنے ساتھ کئی پیغام لاتی ہے جن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں عیدوں کے موقع پر خدا کی نعمتوں سے گہرا تعلق قائم کرنا ہمیں سکھایا ہے۔ رمضان سے تقویٰ، صبر، ہمدردی، ڈسپلن، ضبط نفس پیدا ہوتا ہے اور عید قرباں اپنے آپ کو منانے، اپنے دین پر مکمل عمل کرنے، اور قربانیاں دینے کے لیے تیار کرتی ہے۔
(1)عشرہ ذوالحجہ کی معرفت
عشرہ ذوالحجہ تمام ایام میں افضل تریں عشرہ ہے ،جس طرح ماہ رمضان کی آخری دس راتیں تمام راتوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔سلف صالحین تین عشروں کی تعظیم کیا کرتے تھے ۔۔عشرہ ماہ محرم ،اخیر عشرہ رمضان ،ابتدائی عشرہ ماہ ذوالحجہ۔بالخصوص نو ذوالحجہ یعنی یوم عرفہ کی الگ سے فضیلت وارد ہوئی ہے ،اسی دن دین اسلام کو تکمیل تک پہنچایا گیا ،اسی دن وقوف عرفات کی عبادت انجام دی جاتی ہے ،اسی دن کا قسم رب العزت نے سورۃ البروج میں کھایا ہے ۔اسی دن کی دعا سب سے خیر والی دعا ہے۔اور بالعموم عشرہ ذوالحجہ میں ادا کی جانے والی عبادات پورے سال بھر کے اعمال سے افضل ترین ہے۔اسی مبارک عشرے میں اسلام کے بنیادی پانچ ارکان جمع ہوتے ہیں۔ان دنوں میں کیا جانے والا گناہ بھی عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ اس عشرے کی قدر کی جائے۔
(2)عبادات میں دوام اور ہمیشگی
عشرہ ذوالحجہ میں سلف صالحین فرائض کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات میں بھی سبقت حاصل کرتے تھے۔دعا ،تہلیلات ،تکبیرات ،تحمیدات کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرتے تھے۔شریعت اسلامیہ وقتی عبادات کی قائل نہیں بلکہ دائمی کردار کی طلبگار ہے۔عید الاضحی کے دن بھی عبادات ،اعمال صالحات چھوٹنے نہ پائیں۔سیدنا ابراہیم کے واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم ہمیشہ ،ہر وقت ،ہر لمحہ اللہ کے حکم پر چلیں گے، اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے اور نہ کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں گے۔
(3)ہمارے وجود پر اللہ کی مرضی
عیدالاضحی کردار ابراھیمی و اسوہ اسماعیلی کے ساتھ ہم پر عیاں ہوتی ہے۔سیدنا ابراھیم علیہ السلام کو خلیل الرحمٰن و جدالانبیاء جیسے خطابات سے نوازا گیا ۔۔جب بھی رب نے آزمایا ،ابراھیم کامیاب رہے۔خلیل الرحمن کی پوری حیات طیبہ قربانیوں سے مزین ہے ،جب بھی رب نے آزمایا ،کبھی شکایت نہیں کی ،کبھی گلہ نہ کیا ۔۔۔اسی طرح ان کے بیٹے ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل نے بھی رب کے حکم اور رب کی مرضی کے سامنے اپنے آپ کو مطیع پیش کیا ۔سیدنا اسماعیل نے اپنے پیغمبرانہ فعل سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ رب کے دئے ہوئے وجود پر مرضی بھی رب کی چلے گی ہماری نہیں۔زندگی کے ہر قدم پر رب العزت کی مرضی کے مطابق اپنے لیل و نھار گزارنا عید الاضحٰی کا بنیادی پیغام ہے۔
(4)درس توحید
اہل اسلام عید الاضحی کے موقع پر سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی مبارک سنت کو عملی شکل پہناتے ہیں۔لیکن سنت ابراھیمی کے ساتھ ساتھ عقیدہ ابراھیمی ہونا بھی لازمی ہے۔سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کا ہر موڑ توحید کی دعوت اور شرک سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ابراھیم علیہ السلام نے اپنا وطن چھوڑ دیا ،طاغوت اکبر کی طرف سے ہر ممکن طریقے سے ستایا گیا ،آگ میں اتارا گیا ،اولاد کو ذبح کرنے کی قربانی مانگی گئی لیکن ابراھیم نے کبھی بھی توحید کا سودا نہیں کیا۔اپنے قوم کو ہر ممکن طریقے سے شرک کی قباحت سمجھائی ،توحید کی معرفت دلائی لیکن قوم نے دشمنی اختیار کرکے ابراھیم کو جلانے کی کوشش کی لیکن رب کے فضل سے ناکام رہے۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کا عظیم درس بت شکنی کا ہے۔ آپ نے اپنے والد اور قوم کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر، جذبہ توحید سے سرشار ہو کر قوم کے خود ساختہ معبودوں کو پاش پاش کر دیا۔
(5)حنیفی کردار کی عملی تفسیر
فرمان باری تعالی ہے کہ ،”اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دے دئے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوش خبری دیدو۔”(القرآن)
قران مقدس نے سیدنا ابراھیم کے لئے متعدد مقامات پر "حنیف "لفظ استعمال کیا ۔یکرو ،بس رب کے لئے مر مٹنے والا۔سیدنا خلیل حنیفی کردار کے علمبردار تھے ۔ہمارے دلوں میں رب کی کبرائی ،رب کی بڑائی ،رب العزت کی توحید اس طرح راسخ ہونی چاہئے کہ کسی دوسرے کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔محبت ہو تو رب سے ،خوف ہو تو اس کے عذاب کا ،امید ہو تو اسکی رحمت کی ۔۔رب العزت سے تعلق شرک و ریاکاری سے پاک ہو۔عبادات انجام دیں تو فقط رب کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لئے ،کوئی دوسرا مقصد وہم و گمان میں نہ ہو۔رب آزمائے تو صبر آجائے ،رب عنایت کرے تو شکر ادا کرنا آجائے۔
(6)حق کے لئے اکثریت معیار نہیں
عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کے شباب و دختران ایسے بھیانک راستے پر چل پڑے ہیں جس راستے کی انتہا سوائے رسوائی کے کچھ بھی نہیں۔اکثریت کی اندھی تقلید کرکے فحاشی و عریانی کی سیاہ تاریخ رقم کی جارہی ہے۔دینار و درہم کے حصول کے لئے جسموں کی نمائش کی جارہی ہے ۔دنیا کی دولت سمیٹنے کے لئے عفت و عصمت کو سربازار نیلام کیا جارہا ہے۔منشیات کے دلدل میں نوجوان تیزرفتاری سے ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔حلال و حرام کی فرق کو مٹایا جارہا ہے ،جہالت کو جدیدیت کا لباس پہنایا جارہا ہے۔بد عملی کو مہذبانہ رنگت دی جارہی ہے۔فکری یلغار نوجوانوں کو اپنے لپیٹ میں لے رہی ہے۔ایسی صورتحال میں سیرت ابراھیم قدم بہ قدم ہماری رنمائی کرسکتی ہے ۔۔۔جو تنہا تھے لیکن ایک امت قرار دئے گئے۔جو تنہا تھے لیکن سماجی و فکری گمراہیوں کے خلاف اکیلے کھڑے ہوگئے۔
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
(7)خواہشات کی قربانی
بندہ مومن جب تک اپنی محبوب تریں چیز رب کے راستے میں قربان نہ کرے ،نیکی کا حقیقی مٹھاس حاصل نہیں کرسکتا۔قربانی کے جانور میں عیب موجود ہو تو قربانی نہیں ہوگی ،اسی طرح جب تک ہم خواہشات کی لذتوں سے کنارہ کش نہیں ہونگے ہمیں بھی رب کے دربار میں مقبولیت نہیں مل سکتی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نفوس کو عیبوں سے پاک کرے۔۔۔جو عیب ہمارے کردار میں ہے ،جو عیب ہمارے گفتار میں ہے ،جو عیب ہمارے اخلاق و معاملات میں ہے ،جو عیب ہمارے عقیدے و ایمان میں ہے۔جو عیب ہماری اعمال میں ہے۔جانور کی قربانی دینے سے پہلے اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہوکر خواہشات نفس کی قربانی دیجئے۔رزق حرام کی قربانی دیجئے ،سودی کاروبار کی قربانی دیجئے ،رشوت کی لعنت سے بیزار ہوجائے ،بدکرداری سے نجات حاصل کیجئے۔اللہ کی طرف رجوع کرنے والا بن جائیے۔ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کردیں گے، تاکہ اختلاف، انتشار بغض و حسد، کبر و غرور، عناد و دشمنی، مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ عظمت و بلندی کا جو معیار قرآن مجید نے بتایا ہے، اسے ہم اپنی زندگی میں سجا بسا لیں۔ ذات برادری، رنگ و نسل اور دولت و غربت کے سارے امتیازات کو مٹا کر اخوت و مساوات، پیار و محبت اور ایک خدا کی عبادت و بندگی کی فضا قائم کریں۔
دین کی راہوں میں قربانی نہیں ہے رائیگاں
چاہتے ہو جنتیں تو وار دو یہ جسم و جاں
صرف عقبی ہی نہیں دنیا میں بھی عزت ملے
دیکھ لو میرے خلیل اللہ کی قربانیاں
میرے ابراہیم کا ایمان گر پیدا کرو
آتشِ نمرود بھی بن جائے گی اک گلستاں
(8) عظمت والدین.
سیدنا ابراھیم و سیدہ ہاجرہ کی تربیت تھی کہ سیدنا اسماعیل نے والد کے ایک حکم پر اپنے نفس کی قربانی پیش کی ۔عصر حاضر میں والدین کو سیدنا ابراھیم کی زندگی مطالعہ کرنی چاہیے اور اولادوں کو سیدنا اسماعیل کی زندگی پڑھنی چاہیے ۔حقوق والدین و حقوق اولاد پر لب کشائی کرنے کی ضرورت ہے ۔تربیت کا فقدان دونوں اطراف سے پایا جاتا ہے ،اسی لئے دونوں طبقات تربیت کے لائق ہیں۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
(9)خواتین رب العالمین سے تعلق مضبوط کریں
سیدنا ابراھیم کی پہلی زوجہ محترمہ کا نام سیدہ سارا سلام اللہ علیہا تھا ،جو کہ سیدنا اسحاق کی والدہ تھیں۔جب سیدنا ابراھیم عراق چھوڑ کر مصر سے روانہ ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے تو راستے میں ایک ایسی بستی سے گزر ہوا جہاں سنوان بن علوان ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔کردار کے اعتبار سے یہ گیا گزرا تھا ۔سیدہ سارا سلام اللہ علیہا لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھیں ۔بادشاہ نے انکی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تھا لیکن سیدہ کا تعلق رب العالمین سے اتنا مضبوط تھا کہ رب سے مخاطب ہونے کی دیر تھی کہ بادشاہ زمین میں دھنس جانے لگا۔کیا آج ہماری بیٹیوں ،بہنون کے پاس ایسا کردار ہے۔؟ عید الاضحیٰ ہمیں اسی طرح کردار کی حفاظت کا درس دیتی ہے۔
(10) درس سخاوت
قربانی کرکے شریعت مطہرہ نے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تعلیم دی ہے۔ایک حصّہ اپنے لئے ،ایک حصہ تحفہ کی صورت میں دوستوں اور عزیزوں کے لئے اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین کے لئے ۔جو سوال کرتے ہیں انکے لئے بھی اور جو مانگ نہیں پاتے ان کے لئے بھی ۔دین کا مزاج یہ ہے کہ قربانی کے جانور کا عمدہ ترین حصہ فقراء و مساکین میں تقسیم کیا جائے ۔محتاجوں اور غرباء تک اس گوشت کو پہنچایا جائے تاکہ ان کے لئے بھی کھانے پینے کا انتظام ہوجائے۔ قربانی کرکے اپنی ہٹ دھرمی اور انانیت سے اس مبارک عبادت کو ضائع نہ کریں ۔
عید کے موقع پر كلمة الله یعنی اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کا کام۔ جیسے دونوں عیدوں میں تکبیر کی صدائیں ہم مسلسل لگاتے رہتے ہیں۔ اور دوسرا، اللہ کی رہنمائی کےمطابق اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا کام کرنا ہے۔ عید الفطر میں صدقہ فطر کے ذریعے ہم یہ کام کرتے ہیں۔ اور عید الاضحٰی میں قربانی کا گوشت تقسیم کر کے یہ کام کرتے ہیں۔مفلس و محروم افراد کو خوشیوں میں شامل کرنا فلسفہ ایثار و قربانی ہے۔
(11) محبت پروردگار
فرمان باری تعالی ہے کہ ،” کہو، میری نماز، میری تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرناسب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔”(القرآن)
محبت کا اصول ہے کہ محب اپنے محبوب کا تابع اور فرمانبردار ہوتا ہے۔حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ کیا کوئی بندہ اپنے رب سے اتنی محبت کرسکتا ہے کہ 86 سال کے بعد ملے ہوئے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹا دے ،وہ بیٹا جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا تھا اور اپنے باپ کے کام میں ہاتھ بھی بٹاتا تھا۔یہ محبت میں ایسی وفا ہے جو لاثانی اور بے مثال ہے۔کائنات نے اس جیسی محبت نہیں دیکھی ،کوئی کتاب کا صفحہ اس محبت کی شبہ پیش نہیں کرسکتا۔محبوب سے محبت ہے تو دعوے کو سچا کردیا جائے ، زبانی اقرار کو عملی نمونہ دکھایا جائے۔یہ عظیم پیغام ابراھیم کی مبارک زندگی سے ملتا ہے۔رب نے بھی کتنے پیار سے کہا ،”ابراھیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا”۔ایک ذبح کرنے کے لئے تیار ہوا تو دوسرا ذبح ہونے کے لئے تیار ہوگیا۔دونوں نے رب کے حکم کے آگے اپنی گردنین جھکا دی۔باپ کے ہاتھوں میں چھری ،گردن بیٹے کی ۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔
ایک باریک نقطہ سمجھ میں آتا ہے کہ قربانیاں رائگاں نہیں جاتی ،کسی کو رب بار بار آزماتا ہے تو مایوس نہ ہو بلکہ امید قوی رکھیں کہ ان آزمائشوں کے بدلے رب کے عظیم انعام عطا ہونگے اور اعلی درجہ نصیب ہوگا۔
اگر میں سچ کہوں تو صبر ہی کی آزمائش ہے
یہ مٹی امتحاں پیارے یہ پانی آزمائش ہے
تلاش ذات میں ہم کو کسی بازار ہستی میں
ترا ملنا ترا کھونا الگ ہی آزمائش ہے
(12) قربانی کی توہین نہ کریں
اہل اسلام محتاط رہیں ،قربانی کرکے کھالوں کو سڑکوں پر نہ پھینکے ،غلیظ اور نجس مقامات پر جانوروں کی کھالوں کو نہ پھینکے ۔اسی طرح ماؤں اور بہنوں سے قربانی کا گوشت تقسیم نہ کرائیں ۔۔۔یہ کام مردوں کا ہے ۔۔۔عید سعید کے موقع پر کسی بھی فتنے کو دعوت نہ دیں۔عید کا دن سادگی سے گزاریں ،خوشی کا اظہار شرعی حدود کے تحت کریں۔اسراف و تبذیر سے اجتناب کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عید کی حقیقی خوشی عطا کرے۔۔۔۔آمین۔
Like this:
Like Loading...