Skip to content
عید الاضحی اظہارِ ممنونیت کادن
ازقلم:مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ،بعض نعمتیں وہ ہیں جن کا انسان ادراک کر سکتا ہے اور بعض وہ نعمتیں ہیں جن کا اسے ارداک بھی نہیں ہے،انسانوں کو جو کچھ نعمتیں دی گئیں ہیں اور جو کچھ نعمتیں اس کے زندہ رہنے تک دی جاتی رہیں گی چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی ہر ایک نعمت اپنی جگہ قیمتی بلکہ بیش قیمت ہے ،انسان نہ تو ان میں سے کسی نعمت کی قیمت لگا سکتا ہے اور نہ ہی کسی نعمت کو کسی سے خرید سکتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جتنی نعمتیں عطا کی ہیں محض اپنے فضل وکرم سے عطا کی ہیں ، ان نعمتوں میں بعض نعمتیں وہ ہیں جن کے ملنے کا انسان کو وہم وگمان بھی نہیں رہتا ہے ،جس وقت وہ نعمت حاصل ہوتی ہے تو انسان خوشی ومسرت سے سرشار ہوتا ہے ،یقینا نعمت کے ملنے پر خوش ہونا فطری امر ہے اور انسان کو خوش بھی ہونا چاہئے مگر اسلام اور پیغمبر اسلام نے ایسے مواقع پر انسانوں کو ایک ایسی چیز سکھلائی ہے جس کے ذریعہ خوشی ومسرت دوبالا ہوجاتی ہے اور مزید نعمتیں اس کا مقدر بن جاتی ہیں ،وہ اہم ترین چیز’’شکر گزاری‘‘ ہے ، شکر گزاری دراصل منعم حقیقی کو یاد کرنا اور اس کے سامنے اپنی محتاجگی کا اظہار کرتے ہوئے خود کو ضرورت مند بتانا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں میں وہ بندے محبوب ہیں جو نعمت کے ملنے پر شکر ادا کرتے ہیں اور مصیبت کے پہنچنے پر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں ، نعمت کے حاصل ہونے پر شکر ادا کرنے سے جہاں نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے وہیں مصیبت کے پہنچنے پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے سے نیکیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نزدیکی حاصل ہوتی ہے،گویا صبر وشکر دونوں حالتوں میں مومن کے لئے خیر ہی خیر ہے ،رسول اللہؐ نے اسی بات کو بتاتے ہوئے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :عجبالأمر المومن کلہ خیر ولیس ذالک لأحد الا للمؤمن ان اصابتہ سرا شکر فکان خیرا لہ وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ ( مسلم) ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ،اس کا ہر معاملہ اس کے لئے باعث خیر ہے اور یہ چیز صرف مومن کے لئے خاص ہے ،اگر اسے کوئی نعمت میسر آتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لئے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لئے بہتر ہے‘‘،یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کو صبر وشکر کی تاکید کی گئی ہے اور قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر صبر وشکر کی بجالانے پر دنیا وآخرت کی خوشخبریاں سنائی گئیں ہیں اور بتایا گیا کہ صبر وشکر بہت بڑی دولت ہے ،یہ دولت جسے حاصل ہوجائے دراصل حقیقی دولت میں یہی ہے اور یہ دولت انہیں کو حاصل ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں ،صبر وشکر کو مقربین کی خاص صفت بتلائی گئی ہے ،جو شخص صبر وشکر کی دولت سے محروم ہے وہ بہت بڑی دولت اور خیر سے محروم ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ وہ نعمت کے حاصل ہونے پر شکر کے بجائے اتراتے ہیں اور اسے اپنی قابلیت اور کمال سمجھتے ہیں اور مصیبت سے دوچار ہونے پر گھبراجاتے ہیں اور اپنی زبان کو شکوہ اور شکایت سے آلودہ کرتے ہیں ۔
عید الاضحی جو کہ ۱۰ ؍ ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے جانوروں کو قربان کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محض اپنے فضل وکرم سے دنبہ کا فدیہ دے کر اپنے خلیل سیدنا ابراہیمؑ کے اکلوتے فرزند سیدنا اسماعیل ؑ کو ذبح ہونے سے بچالیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اپنی اور اپنی اولاد کی جان کے بدلے جانور ذبح کرنے کا حکم کرکے بہت بڑا احسان کیا اور اس بات پر شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ اس عمل کو اپنی بارگاہ میں قبول کرتا ہے اور ذبح کیا گیا جانور ہمارے کھانے کے لئے چھوڑ دیتا ہے ،ورنہ پچھلی امتوں کی قربانیوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا کہ اسے آسمان کی آگ آکر کھاجاتی تھی اور جس کی قربانی قبول نہ ہوتی اسے چھوڑ دیتی تھی۔
سب جانتے ہیں کہ قربانی سیدنا ابراہیم ؑ اور ان کے عظیم فرزند سیدنا اسماعیلؑ کی عظیم یادگار ہے ،سیدنا ابراہیمؑ بحکم الٰہی اپنے ملک عراق سے ہجرت کرتے وقت بے اولاد تھے ،آپؑ نے اس موقع پر بارگاہ الٰہی میں اولاد کے لئے ان الفاظ دعا فرمائی تھی: رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ(صٰفت:۱۰۰)’’اے میرے رب ! مجھے ایک نیک بخت اولاد عطا فرما‘‘ بارگاہ خداوندی میں سیدنا ابراہیم ؑ کی دعا قبول ہوتی ہے اور آپؑ کو ایک حلیم المزاج لڑکے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے ، خوشخبری کے الفاظ قرآن مجید میں اس طرح مذکور ہیں: فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ (صٰفت :۱۰۱) ’’ہم نے انہیں ایک برد بار بچے کی بشارت دی‘‘ یہ تھے سیدنا اسماعیل ؑ ،جب سیدنا اسماعیل ؑ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ چلنے پھر نے کے قابل ہوگئے تو سید نا ابراہیم ؑ متواتر تین دن خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اکلوتے فرزند سیدنا اسماعیل ؑ کو راہ خدا میں قربان کر رہے ہیں ،چونکہ انبیاء کا خواب عام انسانوں کے خوابوں کی طرح نہیں ہوتا، بلکہ وہ خدا کا حکم ہوتا ہے اور وہ وحی الٰہی کی حیثیت رکھتا ہے ، سیدنا ابراہیم ؑ سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا حکم ہے مجھے ہر حال میں اسے پورا کرنا ہوگا ، گھر آئے اور اپنے اکلوتے فرزند سیدنا اسماعیل ؑ کو لے کر میدان کی طرف نکل پڑے ،ایک جگہ پہنچ کر اپنے بیٹے کو خواب سے آگاہ کیا اور بطور امتحان ان کی رائے طلب کی ، چونکہ سعادت مند بیٹا جو آگے چل کر خود منصب رسالت پر فائز ہونے والا تھا بہت خوش ہوا اور بڑی معصومیت کے ساتھ والد کو یقین دلاتے ہوئے کہنے لگا ،ابا جان ! خدا کی طرف سے جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے اطمینان سے کر گزرئیے ،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے،قرآن مجید نے ان دو نوں باپ بیٹے کی گفتگو کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرٰی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ(صٰفت :۱۰۲)’’جب وہ بچہ( اسماعیل ؑ) اتنی عمر کو پہنچے کہ(اپنے والد ابراہیمؑ ) کے ساتھ چل پھر سکے تو ابراہیم ؑ نے کہا اے میرے بچے ! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ،تو بتاؤ تمہاری رائے کیا ہے ،؟ اسماعیل ؑ نے کہا اباجان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے پورا کیجئے ،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘سید نا ابراہیم ؑ اپنے سعادت مند ، حلیم الطبع اورمنکسر المزاج بیٹے کا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے ، سیدنا ابراہیم ؑ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے چھری نکالی ،معارف القرآن میں تفسیر مظہری کے حوالے سے اس کے بعد کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا ہے ’’ سیدنا اسماعیل ؑ نے اپنے والد سیدنا ابراہیم ؑ سے فرمایا: ابا جان! مجھے خوب اچھی طرح باندھ دیجئے ،تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں ،اور اپنے کپڑوں کو بھی مجھ سے بچائیے ،ایسا نہ ہوکہ ان پر میرے خون کے چھینٹیں پڑیں ،تومیراثواب گھٹ جائے،اس کے علاوہ میری والدہ خون دیکھیں گی تو انہیں غم زیادہ ہوگا،اور اپنی چھری بھی تیز کر لیجئے ،اور اسے میرے حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیر ئیے ،تا کہ آسانی سے میرا دم نکل سکے ،کیونکہ موت بڑی سخت چیز ہے ،اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو ان سے میرا سلام کہدیجئے ،اور اگر آپ میرا قمیص والدہ کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جائیں ،شاید اس سے انہیں کچھ تسلی ہو،اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر سکتی ہے ؟ لیکن حضرت ابراہیم ؑ استقامت کے پہاڑ بن کر جواب یہ دیتے ہیں کہ :بیٹے ! تم اللہ کا حکم پورا کرنے کے لئے میرے کتنے اچھے مدد گار ہو،یہ کہکر انہوں نے بیٹے کو بوسہ دیا ،پر نم آنکھوں سے انہیں باندھا(معارف القرآن : ج۷،پ ۲۳،ص ۹۰، بحوالہ تفسیر مظہری)،اب سید نا ابراہیم ؑ نے بیٹے کو پیشانی کے بل خاک پر لٹا دیا اور گلے پر چھری چلانے لگے ،لیکن اصل میں اللہ کو اسماعیل ؑ کو ذبح کروانا مقصود نہیں تھا بلکہ سیدنا ابراہیم ؑ کا امتحان مطلوب تھا ، آسمان سے آواز آتی ہے کہ اے ابراہیم ؑ واقعی تم نے تو اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور ہمارے حکم کی تعمیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،ہم تو اپنے حکم پر سر تسلیم خم کر نے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں یعنی ادھر امتحان میں کامیاب اور آخرت میں ڈ ھیر سارا اجر وثواب،ابراہیم ہم نے تمہارے فرزند کے بدلے ایک بڑا ذبیحہ دیا ہے ،قرآن مجید میں سیدنا ابراہیم ؑ کے اس عمل کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے : فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِo وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَo إِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلَائُ الْمُبِیْنُo وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍo وَ(صٰفت:۱۰۷)’’پس جب دونوں مطیع ہوگئے اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا، تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم !تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں،اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ ان کے بدلے میں دے دیا ‘‘ اللہ کو اپنے خلیل سیدنا ابراہیم ؑ اور ان کے سعادت مند فرزند کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اسے رہتی دنیا تک کے لئے اسوہ بنادیا ،قرآن میں ارشاد ہے : :وتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ o سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ o کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ o إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَo(صٰفت: ۱۰۸تا۱۱۱)’’اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا،سلام ہو ابراہیم ؑ پر، یقینا ہم نیکو کاروں کوان کی نیکی ،وفاداری کا اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ،بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے‘‘۔
یقنا عید الاضحی خدا سے محبت ،ابستگی ، وفاداری ،وفاشعاری اور خواہش نفس پر خواہش رب کو مقدم رکھنے اور تجدید عہد وپیمان کا دن ہے،جس طرح اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم ؑ نے حکم ِ ربی پر سر تسلیم خم کر تے ہوئے سچی وفاداری اور غلامی کا ثبوت دیا تھا اور اپنے زبانی قول پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خدا کی محبت میں اپنے اکلوتے فرزند اسماعیل کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے عملی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے زبان حال وقال سے کہا تھا : إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن(انعام ۱۶۳)’’میری نماز اور میری تمام عبادات ( جیسے قربانی وغیرہ) اور میری پوری زندگی اور پھر میری موت سب اللہ کے لئے ہے‘‘ عید الاضحی کے موقع پر ہر صاحب قربانی اسی جزبہ کے ساتھ اور اسی ارادہ و عہد کے ساتھ قربانی کرے کہ اے اللہ ! جس طرح خلیل ابراہیم ؑ اور آپ کے حبیب محمد ﷺ نے بندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ سے سچی اور پکی وفاداری کا اظہار کیا تھا ،آپ کے حکم پر سر جھکایا تھا ، اپنی مرضی کو آپ کی مرضی کے تا بع کیا تھا ،اسی طرح میں بھی آج آپ کے نام پر آپ کے خلیلؑ وحبیب ؐ کی اتباع میں جانور کے گلے پر چھری چلا رہا ہوں ،ان شاء اللہ زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر قدم پر آپ کی مرضی کے لئے خواہشات کے گلے پر چھری چلا تا رہوں گا اور آپ کا سچا وپکا وفادار بن کر زندگی گزاروں گا اور وفادار بن کر ہی دنیا سے جاؤں گا،قربانی اسی تجدید عہد کا نام ہے ۔
بلاشبہ قربانی جہاں مومن کے اندر جذبہ بندگی کو ابھارتی ہے ،حکم الٰہی پر قیمتی سے قیمتی ہر چیز قربان کرنے کا جذبہ بیدار کرتی ہے وہیں شکرگزاری کا جذبہ پروان چڑھاتی ہے اور بتاتی ہے کہ حکم الٰہی کو بلا چوں وچرا پورا کرنا دراصل یہ بھی شکر گزاری ہی ہے اور اس کے ذریعہ نہ صرف بندہ شاکر کہلاتا ہے بلکہ اس کے لئے مزید نعمتوں کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ ان نعمتوں پر شکر کے ذریعہ تقرب کے زینے طے کرتا رہتا ہے ،یقینا قربانی شاکر بندوں کی فہرست میں شامل ہونے کا بہترین ذریعہ ہے ۔
Like this:
Like Loading...